فلسطینیوں کو زیر زمین سڑک کی تعمیر کی اجازت
10 مارچ 2020اسرائیلی وزارت دفاع کے مطابق اس سڑک کی تعمیر سے فلسطینیوں کو اسرائیلی بستی معلہ ایدومیم سے گزرے بغیر ازیم کے دیہات اور عنات، حزمی اور ال رام کے علاقوں کے درمیان آمد و رفت کی سہولت میسر ہو گی۔ اس کے نتیجے میں اس نام نہاد علاقے E1 میں ''یہودی بستیوں یا آباد کاریوں‘‘ کی تعمیر کے منصوبے پر عملدرآمد ممکن ہوجائے گا۔
گزشتہ ماہ فروری میں اسرائیل نے یروشلم اور یہودی بستی معلہ ایدومیم، جسے متنازعہ ای ون زون کہا جاتا ہے، میں 3500 رہائشی مکانوں کی تعمیر کا اعلان کیا تھا۔ اس اقدام سے متعلق وزیر نفتالی بینٹ نے کہا، ''ہم صرف الفاظ میں نہیں بلکہ عملاﹰ خودمختاری کا اطلاق کرتے ہیں۔‘‘
اسرائیلی واچ ڈاگ گروپ Peace Now نے ان منصوبوں پر کڑی تنقید کی ہے۔ پیس ناؤ نے ایک بیان میں لکھا ہے کہ مجوزہ زیر زمین سڑک کی منصوبہ بندی اسرائیل کو ادومیم کے آس پاس کے علاقوں میں دیواریں یا رکاوٹیں کھڑی کرنے اور ان کا اسرائیل سے الحاق کرنے میں مدد دیں گی۔
مالے ادومیم کے گرد متنازعہ دیوار
یہ دیوار بہت زیادہ متنازعہ اور فلسطینیوں کی حق تلفی کرتی ہے۔ تاہم، دیوار کی تعمیر کے بعد سے اسرائیل کے وسط میں حملوں میں کمی ضرور واقع ہوگئی ہے۔ پیس ناؤ کی اطلاعات کے مطابق اسرائیل ان بستیوں کے گرد رکاوٹ تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی میں توسیع نہیں کر سکا کیونکہ اس کی تعمیر سے فلسطینیوں کا مغربی کنارے کے شمال سے جنوب تک رابطہ منقطع ہو جائے گا۔
فلسطین کی وزارت خارجہ نے اس متنازعہ سڑک کی تعمیر کے منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اسرائیلی بستیوں کے ایک بہت بڑے حصے کے درمیان یہ فلسطینی برادری کو الگ تھلگ علاقوں میں محدود کر دینے کی کوشش ہے۔ اس سے اسرائیل کو مشرقی یروشلم کے مقامات مکمل طور پر منقطع کرنے کا موقع ملے گا اور ایک فلسطینی ریاست کا قیام جس میں مشرقی یروشلم دارالحکومت بنے کے امکانات ہمیشہ کے لیے ختم کردیے جائیں گے۔‘‘
جرمنی سے بھی تنقید
E1 کے جدید ترین منصوبوں پر جرمنی کی طرف سے بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ گزشتہ ماہ برلن میں وفاقی دفتر خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ، ’’وفاقی حکومت کو اسرائیلی حکومت کے اُس اعلان پر گہری تشویش ہے جس میں اسرائیل نے اس نہایت اہم اور حساس علاقے میں اپنی آبادکاریوں کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔‘‘ اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس سے مذاکرات کے بعد طے شدہ دو ریاستی حل کے فریم ورک کے اندر ایک مربوط اور قابل عمل فلسطینی ریاست کے قیام کے امکانات کافی کم رہ جائیں گے۔
ع آ/ ک م/ (ڈی پی اے، کے این اے)