امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دیے جانے کے خلاف فلسطینی آج ’یوم غضب‘ منا رہے ہیں۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو باقاعدہ طور پر اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان پر دنیا بھر میں تنقید جاری ہے۔ فلسطین کے مختلف علاقوں میں بھی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگیرینی نے ٹرمپ کے اس اعلان پر اپنے سخت ردعمل میں کہا، ’’یہ وہ فیصلہ ہے، جو اس پورے خطے کو تاریک زمانوں سے بھی پیچھے دھکیل دے گا۔‘‘
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ درست نہیں اور اس کی مخالفت کی جائے گی۔
ادھر ایک اعلیٰ فلسطینی عہدیدار نے جمعرات کے روز اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکی نائب صدر مائیک پینس کو ’فلسطین میں خوش آمدید نہیں‘ کہا جائے گا۔ اس کے جواب میں وائٹ ہاؤس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اگر مائیک پینس اور فلسطینی صدر محمود عباس کے درمیان رواں ماہ کے اختتام پر طے شدہ ملاقات نہ ہوئی تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے اس اعلان کے بعد جمعرات کو فلسطینیوں اور اسرائیلی فورسز کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اسرائیل نے مغربی کنارے میں اضافی فوجی تعینات کر دیے ہیں تاکہ کسی بھی غیرمتوقع صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
ٹرمپ کے اس بیان پر دنیا کے قریب تمام ممالک تنقید کر رہے ہیں، تاہم اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا نام یروشلم کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ نیتن یاہو نے دیگر ممالک سے بھی استدعا کی کہ وہ صدر ٹرمپ کے پیروی کریں۔
اسرائیلی فوج کے ساتھ فلسطینیوں کی جھڑپیں
00:47
دوسری جانب حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے غزہ میں اپنے ایک خطاب میں ’نیا انتفادہ‘ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق گزشتہ روز غزہ سے متعدد راکٹ بھی اسرائیلی علاقوں کی جانب داغے گئے، جس کے جواب میں اسرائیلی بری اور فضائی فورسز نے غزہ کے خلاف کارروائی کی۔ بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے دو مقامات پر حماس کی پوزیشنوں کو نشانہ بنایا۔
جمعے کے روز مغربی کنارے اور غزہ میں بڑے مظاہرے جاری ہیں، جب کہ متعدد مقامات پر جھڑپوں میں کم از کم 22 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔