فلسطینی حملہ آور کی فائرنگ کے نتیجے میں تین اسرائیلی ہلاک
عاطف توقیر
26 ستمبر 2017
ایک فلسطینی حملہ آور نے منگل کے روز یہودیوں کے ایک رہائشی علاقے کے باہر فائرنگ کر کے تین اسرائیلی شہریوں کو ہلاک کر دیا ہے۔
اشتہار
اسرائیلی پولیس اور طبی ذرائع کے مطابق اس واقعے میں اور اسرائیلی زخمی ہوا ہے، جسے انتہائی تشویش ناک حالت میں ہسپتال میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔ اس واقعے میں اسرائیلیوں پر فلسطینیوں کے گزشتہ دو برس سے جاری حملوں میں بدترین قرار دیا جا رہا ہے۔
پولیس ترجمان لوبا سمری کے مطابق 37 سالہ فلسطینی حملہ آور نے ہار ادر کی یہودی رہائشی بستی کے عقبی دروازے کے قریب پہنچ کر اور وہاں موجود فلسطینی مزدوروں میں شامل ہو کر، اس وقت فائرنگ شروع کر دی، جب یہ فلسطینی بستی میں داخلے کے لیے جانچ پڑتال کے مراحل سے گزر رہے تھے۔
پولیس ترجمان کے مطابق اس حملہ آور کو شک کی بنا پر روکا گیا، تو اس نے ہتھیار نکال کر فائرنگ شروع کر دی۔ بتایا گیا ہے کہ اس حملہ آور کے پاس اسرائیل میں کام کرنے کا اجازت نامہ بھی موجود تھا۔ پولیس کے مطابق یہ حملہ آور پولیس کی جوابی فائرنگ کے نتیجے میں موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔
طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں میں تینوں مرد ہیں، جن کی عمریں بیس اور تیس برس کے درمیان ہیں، جب کہ زخمی ہونے والے اسرائیلی شہری کی عمر 32 برس ہے۔
اسرائیلی فوج کے ساتھ فلسطینیوں کی جھڑپیں
00:47
واضح رہے کہ ہار ادر کی بستی یروشلم کے مغربی حصے میں واقع ہے اور یہ علاقہ پرامن سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ یہاں اس طرز کا حملہ غیرعمومی بات ہیں۔
ہار ادر کی بستی کی سکیورٹی کمیٹی کے سربراہ شے ریٹر کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر سو سے ڈیڑھ سو فلسطینی مزدور اس بستی میں کام کے لیے داخل ہوتے ہیں۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔
یہ بات اہم ہے کہ ستمبر 2015 سےفلسطینیوں کی جانب سے کئے جانے والے حملوں کے نتیجے میں مجموعی طور پر 48 اسرائیلی جب کہ دو امریکی اور ایک برطانوی سیاح ہلاک ہو چکے ہیں۔ فلسطینیوں کی جانب سے یہ حملے، فائرنگ، چاقو کے وار اور پید چلنے والوں پر کار چڑھانے کی صورت میں کیے گئے۔
اس دوران اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مجموعی طور پر 255 فلسطینی ہلاک ہوئے۔