فلسطینی وزیر اعظم مستعفی، خلیج بڑھتی ہوئی
17 جون 2015صدر محمود عباس کے ایک قریبی ساتھی کے مطابق وزیر اعظم رامی حمداللہ نے صدر عباس کو اپنا استعفیٰ سونپ دیا ہے۔ اس کے باوجود یہ واضح نہیں کہ حکومت باقاعدہ طور پر کب تحلیل ہوگی۔ یہ بھی واضح نہیں کہ نئی فلسطینی کابینہ کی شکل کیا ہوگی۔
نمر حماد کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کے قیام کے لیے فلسطین کی مختلف تنظیموں اور دھڑوں، بشمول حماس، کے درمیان مذاکرات کیے جائیں گے۔
ٹیکنوکریٹس کی حکومت گزشتہ برس اس لیے قائم کی گئی تھی تاکہ غزہ پٹی اور مغربی کنارے میں متحارب انتظامی اداروں کا متبادل پیش کیا جا سکے۔
وزیر اعظم کے استعفے سے قبل پی ایل او کے ایک عہدے دار کا کہنا تھا کہ نئی حکومت کی تشکیل تک ’’موجودہ حکومت کام کرتی رہے گی۔‘‘
تنظیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ نئی حکومت ’’ٹیکنوکریٹس پر نہیں بلکہ سیاست دانوں پر مشتمل ہوگی۔‘‘
صدر عباس کے ترجمان نبیل ابو رضینہ کا کہنا ہے کہ پی ایل او کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس پیر کے روز ہوگا جس میں ’’قومی اتحاد کی حکومت کی تشکیل‘‘ پر بات چیت ہوگی۔ انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات بیان نہیں کیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی تبدیلی کئی ماہ سے زیر غور تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ رامی کی کابینہ حماس کے زیر انتظام غزہ میں اپنا اثر بڑھانے میں ناکام رہی تھی۔
حماس کی تنقید
تاہم حماس نے ’’یک طرفہ‘‘ طور پر قومی حکومت کی برطرفی کو مسترد کر دیا ہے۔
تنظیم کے ترجمان سامی ابو ظہری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’حماس اس یک طرفہ تبدیلی کے خلاف ہے جو کہ تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیے بغیر کی گئی ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’’ہمیں اس بارے میں کسی نے کچھ نہیں بتایا اور نہ ہی کسی نے ہم سے مشورہ کیا۔‘‘
یہ صورت حال ایک ایسے وقت پیش آ رہی ہے جب بعض ذرائع کے مطابق حماس بالواسطہ اور یک طرفہ طور پر اسرائیلی حکومت کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔ یہ مذاکرات گزشہ برس اگست میں اسرائیل کے غزہ پر حملے کے بعد طے پانے والی جنگ بندی کو طول دینے اور مضبوط بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
یہ بات غیر واضح ہے کہ صدر عباس کی جانب سے حکومت کی تحلیل کے اقدام کا حماس کے اسرائیل کے ساتھ مبینہ مذاکرات سے کوئی تعلق ہے، تاہم پی ایل او کے ایک رہنما کا کہنا تھا، ’’اگر آپ غزہ کے لیے ایک نئی طرح کا اسٹیٹس چاہتے ہیں تو پھر فلسطینی ریاست کا تصور ہی تحلیل ہو جاتا ہے۔‘‘