1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’فلسطینی دفتر بند ہوا تو امریکا سے رابطے ختم‘

19 نومبر 2017

فلسطینی حکام کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے واشنگٹن میں پی ایل او کے مشن کو بند کیا تو امریکا کے ساتھ تمام روابط ختم کر دیے جائیں گے۔ اس پیش رفت کے امریکا کی مشرق وسطیٰ پالیسی پر شدید اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

USA Washington PLO Büro
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan

فلسطینی حکام نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کی طرف سے غیر متوقع طور پر  فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن ( پی ایل او) کے واشنگٹن میں واقع مشن کو بند کرنے کا منصوبہ مشرق وسطیٰ امن عمل کو مکمل طور پر تباہ کر سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں سینیئر فلسطینی مذاکرات کار صائب عریقات کا کہنا تھا، ’’ فلسطینی امریکی انتظامیہ کے ساتھ تمام تر رابطے معطل کر دیے جائیں گے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ واشنگٹن کا یہ فیصلہ ’قابل افسوس اور ناقابل قبول‘ ہے۔

فلسطین کی یونٹی حکومت اسرائیل کو تسلیم اور حماس کو غیر مسلح کرے، امریکا

عریقات کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ پر الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے دباؤ کے سامنے جھکتے جا رہے ہیں، ’’اور یہ ایک ایسے وقت میں جب ہم کسی حتمی معاہدے کے لیے تعاون کی کوششیں کر رہے ہیں۔‘‘

جمعے کے روز امریکا نے اعلان کیا تھا کہ وہ پی ایل او کے واشنگٹن میں دفتری اجازت نامے کی تجدید نہیں کریں گے۔ پی ایل او کے مشن کو واشنگٹن میں کام کرنے کی اجازت چند گھنٹوں بعد ختم ہو رہی ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ امریکا نے یہ فیصلہ فلسطینی حکام کے انٹرنیشنل کریمینل کورٹ اور اس حوالے سے اسرائیلیوں کے خلاف دیے جانے والے بیانات کے تناظر میں کیا ہے۔

فلسطین، اسرائیل امن کے لیے جو ضروری ہوا، کروں گا، ٹرمپ

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ پی ایل او کے سفارت خانے کو مستقل طور پر بند کیا جا رہا ہے یا پھر اسے صرف عوام کے لیے بند کیا گیا ہے۔ فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے آئندہ پیر کے روز امریکی حکام سے ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات میں پی ایل او کے آفس، سفارت کاروں کے کام اور فلسطینی حکام کے ساتھ رابطوں کے حوالے سے بات چیت کی جائے گی۔

واشنگٹن میں پی ایل او کا مشن ہی تمام فلسطینیوں کی نمائندگی کرتا ہے۔  امریکا فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود پی ایل او کا ’جنرل وفد مشن‘ واشنگٹن میں موجود ہے تاکہ فلسطینی حکام کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ جاری رہ سکے۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق فلسطینیوں کو یہ دفتر کھولنے کی اجازت اس وجہ سے دی گئی تھی کہ وہ انٹرنیشنل کریمینل کورٹ میں اسرائیلیوں کے خلاف مقدمات پر اثرانداز نہیں ہوں گے۔ ستمبر میں اقوام متحدہ کے سامنے صدر محمود عباس کا کہنا تھا، ’’فلسطینیوں نے انٹرنیشنل کریمینل کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان تمام اسرائیلی حکام کے خلاف تحقیقات کرے، جو آبادی کاری اور ہمارے لوگوں کے خلاف جارحیت میں ملوث ہیں۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں