فلسطین کو ریاست کے طور پر وسیع تر بین الاقوامی شناخت ملنے کے باوجود کئی مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ وہ خود مختار فلسطینی ریاست کو صرف اسی صورت میں تسلیم کریں گے جب اسرائیل کے ساتھ ایک جامع امن معاہدہ طے پا جائے گا۔
اسپین، آئرلینڈ اور ناروے ان تازہ ترین ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیا ہےتصویر: Dennis Van Tine/Geisler-Fotopress/picture alliance
اشتہار
فلسطینی ریاست کا معاملہ اور مشرق وسطیٰ کے تنازعے کا دو ریاستی حل نو ستمبر سے شروع ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے میں نمایاں طور پر شامل ہوں گے۔
فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا اور مالٹا نے اعلان کیا ہے کہ وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر فلسطینی ریاست کو باقاعدہ تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ برطانیہ نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ پٹی میں امن کی طرف کوئی اہم قدم نہیں اٹھاتا، جیسے کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی پر رضامندی اور اقوام متحدہ کی طرف سے مہیا کردہ امداد کو اس خطے میں داخل ہونے کی اجازت دینا، تو وہ بھی ایسا ہی کرے گا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے 10 اگست کو ایک پریس کانفرنس میں ان اقدامات کو ''شرمناک‘‘ قرار دیا اور کہا کہ اس سے ''امن نہیں آئے گا۔‘‘
دنیا کے زیادہ تر ممالک پہلے ہی فلسطینی علاقوں کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں، لیکن اہم طاقتوں کی جانب سے سخت مخالفت برقرار ہے۔ 11 مئی 2024 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 193 میں سے 143 رکن ممالک نے ایک قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے متعلق تھی۔
فلسطین کو فی الحال اقوام متحدہ میں غیر رکن مبصر کی حیثیت حاصل ہے، مگر مکمل رکنیت کا فیصلہ صرف سلامتی کونسل کر سکتی ہے۔ اپریل 2024 میں، امریکہ جو سلامتی کونسل کا مستقل رکن اور ویٹو پاور کا حامل ہے، نے ایک مسودہ قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا، جس میں فلسطین کو مکمل رکنیت دینے کی سفارش کی گئی تھی۔
کچھ ممالک کے لیے فلسطینی علاقوں کو بطور ریاست تسلیم کرنا مشرقِ وسطیٰ میں سفارتی تعلقات کو متوازن کرنے اور دو ریاستی حل کے لیے اپنی وابستگی کا اظہار کرنے کا ایک علامتی اقدام تھاتصویر: dapd
فلسطینی ریاست کا تسلیم کیے جانے کے لیے سفر
اب تک کل 147 ممالک فلسطینی علاقوں کو باضابطہ طور پر ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔ ان میں سے تقریباً نصف ممالک نے یہ قدم نومبر 1988 کے بعد اٹھایا، جب فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) نے باضابطہ طور پر فلسطین کو ایک آزاد ریاست قرار دیا۔ یہ حمایت کمیونسٹ ریاستوں جیسے سوویت یونین اور چین کے ساتھ ساتھ غیر جانبدار ممالک یوگوسلاویہ اور بھارت سے بھی ملی تھی۔
اشتہار
بعد میں مزید ممالک بھی اس عمل میں شامل ہو گئے۔ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں وسطی ایشیائی ممالک، جنوبی افریقہ، فلپائن اور روانڈا نے بھی فلسطینی علاقوں کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ 2000 کی دہائی کے اوائل میں ارجنٹائن، بولیویا، ایکواڈور اور وینزویلا نے بھی فلسطینی علاقوں کو ایک خود مختار ملک کے طور پر تسلیم کر لیا۔
فلسطینی اتھارٹی نے سن دو ہزار گیارہ میں اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے درخواست دی، لیکن سلامتی کونسل نے اسے مسترد کر دیا۔
اس کے باوجود فلسطینی اتھارٹی کی سفارتی کوششوں اور اسرائیلی فلسطینی امن عمل میں جمود سے پیدا ہونے والی مایوسی کے نتیجے میں چلی، یوروگوائے اور پیرو سمیت ایک درجن سے زائد ممالک نے فلسطینی علاقوں کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کیا۔
اسی سال فلسطین یونیسکو کا مکمل رکن بن گیا، جو فلسطینی سفارت کاری کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی۔ آئس لینڈ پہلا مغربی یورپی ملک بنا، جس نے اسے ریاست کے طور پر تسلیم کیا، اور 2014 میں سویڈن نے آئس لینڈ کی پیروی کرتے ہوئے ایسا ہی فیصلہ کیا۔
سلووینیا نے 2024 میں فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کیاتصویر: Ales Beno/Anadolu/picture alliance
حالیہ پیش رفت
سن دو ہزار چوبیس میں، بہاماس، ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو، جمیکا اور بارباڈوس نے بھی فلسطینی علاقوں کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔
جون 2023 میں میکسیکو نے فلسطینی ریاست کی مکمل حمایت کا اعلان کیا، اور اس کے فوراً بعد میکسیکو کی حکومت نے فلسطینی علاقوں میں ایک مکمل سفارت خانہ قائم کرنے کے اقدامات کیے، جسے سفارتی مشنز کو دی جانے والی تمام مراعات اور استثنیٰ حاصل ہونا تھے۔
سن دو ہزار اٹھارہ میں کولمبیا نے صدر خوآن مانوئل سانتوس کے دور کے اختتام سے قبل ہی فلسطین کو ایک خود مختار ملک تسلیم کر لیا۔ غزہ پٹی پر اسرائیلی حملے کے آغاز سے ہی یہ لاطینی امریکی ملک، جس نے 2023 میں اسرائیل کو ایک بلین ڈالر کی برآمدات کی تھیں، نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سیاسی اور اقتصادی تعلقات کم کر دیے۔ صدر گستاف پیٹرو نے اسرائیل سے تعلقات منقطع کر دیے، اور اس ہفتے کے اوائل میں مغربی کنارے کے مقبوضہ شہر رام اللہ میں اپنے ملک کا سفارت خانہ کھولے جانے کا حکم دے دیا۔
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا قیام 1948 میں عمل میں آیا تھا۔ اس بات کو سات دہائیوں سے زائد وقت گزر چکا ہے مگر اب بھی دنیا کے بہت سے ممالک نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہ ممالک کون سے ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kahana
1. افغانستان
افغانستان نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک نہ تو اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ سن 2005 میں اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے عندیہ دیا تھا کہ اگر الگ فلسطینی ریاست بننے کا عمل شروع ہو جائے تو اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ممکن ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
2. الجزائر
عرب لیگ کے رکن شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک الجزائر اسرائیل کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتا اس لیے دونوں کے مابین سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ الجزائر سن 1962 میں آزاد ہوا اور اسرائیل نے اسے فوری طور پر تسلیم کر لیا، لیکن الجزائر نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر الجزائر کا سفر ممکن نہیں۔ سن 1967 کی جنگ میں الجزائر نے اپنے مگ 21 طیارے اور فوجی مصر کی مدد کے لیے بھیجے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/A. Widak
3. انڈونیشیا
انڈونیشیا اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی، سیاحتی اور سکیورٹی امور کے حوالے سے تعلقات موجود ہیں۔ ماضی میں دونوں ممالک کے سربراہان باہمی دورے بھی کر چکے ہیں۔ سن 2012 میں انڈونیشیا نے اسرائیل میں قونصل خانہ کھولنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن اب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rante
4. ايران
اسرائیل کے قیام کے وقت ایران ترکی کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم اکثریتی ملک تھا۔ تاہم سن 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی۔ ایران اسرائیل کو اب تسلیم نہیں کرتا اور مشرق وسطیٰ میں یہ دونوں ممالک بدترین حریف سمجھے جاتے ہیں۔
تصویر: khamenei.ir
5. برونائی
برونائی کا شمار بھی ان قریب دو درجن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک اسے تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے باہمی سفارتی تعلقات ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Rani
6. بنگلہ دیش
بنگلہ دیش نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ جب تک آزاد فلسطینی ریاست نہیں بن جاتی تب تک ڈھاکہ حکومت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اسرائیل نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کی حمایت کی تھی اور اس کے قیام کے بعد اسے تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں اسرائیل کا شمار بھی ہوتا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
7. بھوٹان
بھوٹان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں اور نہ ہی وہ اسے تسلیم کرتا ہے۔ بھوٹان کے خارجہ تعلقات بطور ملک بھی کافی محدود ہیں اور وہ چین اور اسرائیل سمیت ان تمام ممالک کو تسلیم نہیں کرتا جو اقوام متحدہ کے رکن نہیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
8. پاکستان
پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ پر یہ بھی درج ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔ عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے اسرائیل کے خلاف عسکری مدد روانہ کی تھی اور اسرائیل نے مبینہ طور پر پاکستانی جوہری منصوبہ روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔ پاکستان نے بھی دو ریاستی حل تک اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
9. جبوتی
جمہوریہ جبوتی عرب لیگ کا حصہ ہے اور اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم 50 برس قبل دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔
تصویر: DW/G.T. Haile-Giorgis
10. سعودی عرب
سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ نہ تو باقاعدہ سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی اب تک اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران تاہم دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری دکھائی دی ہے۔ سعودی شاہ عبداللہ نے سن 2002 میں ایک ہمہ جہت امن منصوبہ تجویز کیا لیکن تب اسرائیل نے اس کا جواب نہیں دیا تھا۔ سعودی عرب نے اسرائیل اور یو اے ای کے تازہ معاہدے کی حمایت یا مخالفت میں اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
ہمسایہ ممالک اسرائیل اور شام عملی طور پر اسرائیل کے قیام سے اب تک مسلسل حالت جنگ میں ہیں اور سفارتی تعلقات قائم نہیں ہو پائے۔ دونوں ممالک کے مابین تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ علاوہ ازیں شام کے ایران اور حزب اللہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں۔ اسرائیل خود کو لاحق خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے شام میں کئی ٹھکانوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔
شمالی کوریا نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس شمالی کوریا نے سن 1988 میں فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
13. صومالیہ
افریقی ملک صومایہ بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی دونوں کے باہمی سفارتی تعلقات وجود رکھتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/Y. Chiba
14. عراق
عراق نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد ہی عراق نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ عراقی کردوں نے تاہم اپنی علاقائی حکومت قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
تصویر: DW
15. عمان
عرب لیگ کے دیگر ممالک کی طرح عمان بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا تاہم سن 1994 میں دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کیے تھے جو سن 2000 تک برقرار رہے۔ دو برس قبل نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل وفد نے عمان کا دورہ کیا تھا۔ عمان نے اماراتی اسرائیلی معاہدے کی بھی حمایت کی ہے۔ اسرائیلی حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ عمان بھی جلد ہی اسرائیل کے ساتھ ایسا معاہدہ کر لے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
16. قطر
قطر اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اب تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات رہے ہیں۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر قطر کا سفر نہیں کیا جا سکتا لیکن سن 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کے لیے اسرائیلی شہری بھی قطر جا سکیں گے۔ اماراتی فیصلے کے بارے میں قطر نے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
17. کوموروس
بحر ہند میں چھوٹا سا افریقی ملک جزر القمر نے بھی ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ عرب لیگ کے رکن اس ملک کے تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔
18. کویت
کویت نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تاریخی امن معاہدے کے بارے میں کویت نے دیگر خلیجی ریاستوں کے برعکس ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Gambrell
19. لبنان
اسرائیل کے پڑوسی ملک لبنان بھی اسے تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین مسلسل جھڑپوں کے باعث اسرائیل لبنان کو دشمن ملک سمجھتا ہے۔ اسرائیل نے سن 1982 اور سن 2005 میں بھی لبنان پر حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. A. Akman
20. لیبیا
لیبیا اور اسرائیل کے مابین بھی اب تک سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔
21. ملائیشیا
ملائیشیا نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ علاوہ ازیں ملائیشیا میں نہ تو اسرائیلی سفری دستاویزت کارآمد ہیں اور نہ ہی ملائیشین پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات قائم ہیں۔
تصویر: Imago/Zumapress
22. یمن
یمن نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی سفارتی تعلقات قائم کیے۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور یمن میں اسرائیلی پاسپورٹ پر، یا کسی ایسے پاسپورٹ پر جس پر اسرائیلی ویزا لگا ہو، سفر نہیں کیا جا سکتا۔
تصویر: Reuters/F. Salman
22 تصاویر1 | 22
مغرب کا موقف کیا ہے؟
امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، کئی مغربی یورپی ممالک اور ان کے اتحادی جاپان اور جنوبی کوریا طویل عرصے سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے تصور کی حمایت کرتے آئے ہیں، جو اسرائیل کے ساتھ موجود ہو اور مشرق وسطیٰ کے دیرینہ تنازع کا حل پیش کرے۔ تاہم ان میں سے بہت سے ممالک نے کہا ہے کہ وہ فلسطینی علاقوں کو ایک آزاد ملک کے طور پر صرف اسی صورت میں تسلیم کریں گے جب یہ کسی جامع امن معاہدے کے فریم ورک کے تحت ہو۔
یہ موقف اس وقت بدلنا شروع ہوا، جب فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے ارادے کا اعلان کرنے والا جی سیون کا پہلا ملک بن گیا۔ کینیڈا، مالٹا اور آسٹریلیا نے بھی اس کی پیروی کی۔
یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کے سینئر پالیسی فیلو اور مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر ہیو لوواٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دیگر یورپی ممالک بھی فرانس کے ساتھ شامل ہو کر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بیلجیم، ڈنمارک، لکسمبرگ اور ممکنہ طور پر پرتگال کا ایسے ممالک کے طور پر ذکر کیا، جو یہ قدم اٹھا سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی، جو یورپی یونین میں اسرائیل کے سب سے بڑے حامیوں میں سے ایک ہے، کا موجودہ موقف بدلنے کا امکان نہیں نظر آتا۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ بات تو درست ہے کہ کسی امکان کو ہمیشہ کے لیے مسترد نہیں کیا جا سکتا، لیکن میرا خیال ہے کہ جرمنی نے یہ بالکل واضح کر دیا ہے کہ وہ فلسطین کو تسلیم کرنے والے سب سے آخری ممالک میں شامل ہو گا۔‘‘