فلسطینی صدر عباس کے غصے کو سمجھ سکتے ہیں، روسی وزیر خارجہ
عابد حسین
15 جنوری 2018
روس کے وزیر خارجہ نے اپنی سالانہ پریس کانفرنس میں کئی بین الاقوامی موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے۔ اس پریس کانفرنس میں انہوں نے واضح کیا کہ ایرانی جوہری ڈیل پر امریکی صدر کے مطالبے کی حمایت نہیں کر سکتے۔
اشتہار
روس کے وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے اپنی سالانہ پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ وہ فلسطین کے صدر محمود عباس کے امریکا پر رنج اور غصے کے اظہار کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ لاوروف کا یہ بیان محمود عباس کے حالیہ بیان کے تناظر میں ہے، جس میں انہوں نے امریکی صدر کی امن کوششوں کو مسترد کرتے ہوئے مزید ثالثی کو قبول نہ کرنے کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیل فلسطینی تنازعے کے حوالے سے روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ کئی دنوں سے سن رہے ہیں کہ امریکا امن کوششوں کے حوالے سے ایک نئے پلان کا اعلان کرنے والا ہے اور اس پلان سے دونوں فریقوں کو اطمینان حاصل ہو گا، لیکن ایسا ابھی تک کچھ بھی سامنے نہیں آیا ہے۔ لاوروف نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل فلسطینی تنازعے کے اب تک حل نہ ہونے سے عالمی سطح پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔
اسی پریس کانفرنس میں روس کے وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر پہلے سے طے شدہ ڈیل میں تبدیلی کے امریکی مطالبے کو کسی طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لاوروف نے امریکا سے کہا کہ وہ ایرانی جوہری ڈیل کی حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا۔
یہ امر اہم ہے کہ ابھی چند روز قبل امریکی صدر نے ایرانی جوہری ڈیل کے حوالے سے اپنے یورپی اتحادیوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس ڈیل میں پائی جانے والی خامیوں کا فوری طور پر تدارک کریں وگرنہ اگلے برس معاہدے کی روشنی میں ایران کو استثنا نہیں دیا جائے گا۔
سیرگئی لاوروف نے مزید کہا کہ ایرانی جوہری ڈیل کے حوالے سے امریکی منصوبہ یقینی طور پر شمالی کوریائی جوہری تنازعے کو بھی پیچیدہ کر دے گا۔ انہوں نے واشنگٹن حکومت کو متنبہ کیا کہ ایسی کسی بھی کوشش سے شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات شروع نہیں ہوں گے کیونکہ شمالی کوریا بھی پابندیوں میں نرمی کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس پریس کانفرنس میں روسی وزیر خارجہ نے شامی تنازعے کی موجودہ صورتحال پر بھی گفتگو کی۔
ولادیمیر پوٹن کے مختلف چہرے
امریکی جریدے ’فوربز‘ نے اپنی سالانہ درجہ بندی میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو دنیا کی طاقتور ترین شخصیت قرار دیا ہے۔ اس فہرست میں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے نمبر پر ہیں۔ دیکھتے ہیں، پوٹن کی شخصیت کے مختلف پہلو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کے جی بی سے کریملن تک
پوٹن 1975ء میں سابق سوویت یونین کی خفیہ سروس کے جی بی میں شامل ہوئے۔ 1980ء کے عشرے میں اُن کی پہلی غیر ملکی تعیناتی کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں ہوئی۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے بعد پوٹن روس لوٹ گئے اور صدر بورس یلسن کی حکومت کا حصہ بنے۔ یلسن نے جب اُنہیں اپنا جانشین بنانے کا اعلان کیا تو اُن کے لیے ملکی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Klimentyev
پہلا دورِ صدارت
یلسن کی حکومت میں پوٹن کی تقرری کے وقت زیادہ تر روسی شہری اُن سے ناواقف تھے۔ یہ صورتِ حال اگست 1999ء میں تبدیل ہو گئی جب چیچنیہ کے مسلح افراد نے ہمسایہ روسی علاقے داغستان پر حملہ کیا۔ صدر یلسن نے کے جی بی کے سابق افسر پوٹن کو بھیجا تاکہ وہ چیچنیہ کو پھر سے مرکزی حکومت کے مکمل کنٹرول میں لائیں۔ سالِ نو کے موقع پر یلسن نے غیر متوقع طور پر استعفیٰ دے دیا اور پوٹن کو قائم مقام صدر بنا دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images
میڈیا میں نمایاں کوریج
سوچی میں آئس ہاکی کے ایک نمائشی میچ میں پوٹن کی ٹیم کو چھ کے مقابلے میں اٹھارہ گول سے فتح حاصل ہوئی۔ ان میں سے اکٹھے آٹھ گول صدر پوٹن نے کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Nikolsky
اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں
اپوزیشن کی ایک احتجاجی ریلی کے دوران ایک شخص نے منہ پر ٹیپ چسپاں کر رکھی ہے، جس پر ’پوٹن‘ لکھا ہے۔ 2013ء میں ماسکو حکومت نے سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے نوووستی کے ڈھانچے کی تشکیلِ نو کا اعلان کرتے ہوئے اُس کا کنٹرول ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دیا، جسے مغربی دنیا کا سخت ناقد سمجھا جاتا تھا۔ ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے پریس فریڈم کے اعتبار سے 178 ملکوں کی فہرست میں روس کو 148 ویں نمبر پر رکھا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/V.Maximov
پوٹن کی ساکھ، اے مَین آف ایکشن
روس میں پوٹن کی مقبولیت میں اس بات کو ہمیشہ عمل دخل رہا ہے کہ وہ کے جی بی کے ایک سابق جاسوس اور عملی طور پر سرگرم شخص ہیں۔ اُن کی شخصیت کے اس پہلو کو ایسی تصاویر کے ذریعے نمایاں کیا جاتا ہے، جن میں اُنہیں برہنہ چھاتی کے ساتھ یا کسی گھوڑے کی پُشت پر یا پھر جُوڈو کھیلتے دکھایا جاتا ہے۔ روس میں استحکام لانے پر پوٹن کی تعریف کی جاتی ہے لیکن آمرانہ طرزِ حکمرانی پر اُنہیں ہدفِ تنقید بھی بنایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Nikoskyi
دم گھونٹ دینے والی جمہوریت
2007ء کے پارلیمانی انتخابات میں صدر پوٹن کی جماعت ’یونائیٹڈ رَشیا‘ نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ناقدین نے کہا تھا کہ یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی جمہوری۔ صدر پوٹن پر دم گھونٹ دینے والی جمہوریت کا الزام لگانے والوں نے جلوس نکالے تو پولیس نے اُن جلوسوں کو منتشر کر دیا اور درجنوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ اس جلوس میں ایک پوسٹر پر لکھا ہے:’’شکریہ، نہیں۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/Y.Kadobnov
پوٹن بطور ایک مہم جُو
سیواستوپول (کریمیا) میں پوٹن بحیرہٴ اسود کے پانیوں میں ایک ریسرچ آبدوز کی کھڑکی میں سے جھانک رہے ہیں۔ اِس مِنی آبدوز میں غوطہ خوری اُن کا محض ایک کرتب تھا۔ انہیں جنگلی شیروں کے ساتھ گھومتے پھرتے یا پھر بقا کے خطرے سے دوچار بگلوں کے ساتھ اُڑتے بھی دکھایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ عوام میں اُن کی بطور ایک ایسے مہم جُو ساکھ کو پختہ کر دیا جائے، جسے جبراً ساتھ ملائے ہوئے علاقے کریمیا پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔