فلسطینی صدر کی طرف سے سوشل میڈیا اور نیوز ویب سائٹس کے کنٹرول کی خاطر جاری کردہ ایک حکم نامے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ناقدین کے مطابق اس سے مغربی کنارے کے علاقے میں آزادی رائے پر قدغنوں کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
اشتہار
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے گزشتہ ماہ ہی ایک حکم نامہ جاری کیا تھا، جس کے تحت مبہم انداز میں سوشل میڈیا اور نیوز ویب سائٹس کے بارے میں سخت قواعد و ضوابط متعارف کرا دیے گئے تھے۔ یہ امر اہم ہے کہ ویسٹ بینک کے مقبوضہ علاقوں میں سوشل میڈیا اور یہی نیوز ویب سائٹس بحث و مباحثے کا ایک اہم پلیٹ فارم قرار دی جاتی ہیں۔ انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان کے مطابق بغیر کسی عوامی بحث کے جاری کردہ اس صدارتی حکم نامے کے باعث کسی بھی فرد کو ’سماجی یا قومی اتحاد‘ کو نقصان پہنچانے کے الزام میں دھرا جا سکتا ہے۔
فلسطینی پراسیکیوٹرز نے البتہ ایسے خدشات کو مسترد کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ نئے الیکٹرانک قوانین کی ضرورت تھی تاکہ ایسے افراد کا احتساب کیا جا سکے، جو سائبر جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔
فلسطینی پراسیکیوٹرز نے کہا کہ ماضی میں کئی ایسی مثالیں ہیں کہ مناسب قانون کی عدم موجودگی کے باعث کئی ہیکرز کو سزائیں نہیں سنائی جا سکی تھیں۔
تاہم گزشتہ ایک ماہ کے دوران فلسطینی اتھارٹی تیس ویب سائٹس کو بلاک کر چکی ہے۔
فلسطینی سینٹر برائے ڈویلپمنٹ اینڈ میڈیا فریڈمز نامی ادارے کے مطابق ان میں سے زیادہ تر ویب سائٹس صدر محمود عباس کے مرکزی سیاسی حریف محمد دحلان کی حامی بھی تھیں۔ اسی طرح کچھ ایسی ویب سائٹس کو بھی بند کر دیا گیا ہے، جو غزہ میں فعال جنگجو گروہ حماس یا سنی انتہا پسند گروہ داعش کے زیر اثر تھیں۔
رواں ہفتے ہی پانچ ایسے صحافیوں کو گرفتار بھی کیا گیا، جو مبینہ طور پر حماس کی نیوز ویب سائٹس سے وابستہ تھے۔ ان پر اس نئے قانون کو توڑنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اسی طرح چار ایسے دیگر صحافیوں سے بھی تفتیش کی جا چکی ہے، جنہوں نے سوشل میڈیا پر فلسطینی اتھارٹی کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
فلسطین کے انڈیپنڈنٹ کمیشن فار ہیومن رائٹس کے سربراہ عمار دویک نے اس نئے قانون کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ سن انیس سو چورانوے میں فلسطینی خودمختار اتھارٹی کے قیام کے بعد بنائے جانے قوانین میں یہ سے ’بدترین قانون‘ ہے۔ اس قانون کی مبہم زبان پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’ویسٹ بینک میں آزادی کے لیے یہ ایک دھچکا ہے‘۔
اس قانون کے تحت سخت سزائیں رکھی گئی ہیں جبکہ سکیورٹی فورسز کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر نیوز ویب سائٹس بند کر دیں۔ اس نئے قانون کے تحت مجرمان کو ایک سال سے لے کر عمر قید تک کی سزائیں سنائی جا سکیں گی۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔