بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی چیف پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات غیر جانبدارانہ طریقے سے ہوں گی اور تنازعے کے دونوں فریقوں سے تفتیش کی جائیگی۔
اشتہار
دی ہیگ میں واقع عالمی فوجداری عدالت کی استغثی فاتو بن سودا نے تین مارچ بدھ کے روز اعلان کیا کہ ان کا محمکہ اب فلسطینی سرزمین پر ہونے والے ممکنہ جنگی جرائم کی تفتیش کا با ضابطہ آغاز کرنے والا ہے۔ عدالت کی استغثی فاتو بن سودا نے ایک بیان میں کہا،’’ تفتیش آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور معروضی طور پر بغیر کسی خوف اور طرفداری کے کی جائے گی۔‘‘
بین الاقوامی فوجداری عدالت دونوں جانب سے ہونے والے ممکنہ جنگی جرائم کی تفتیش کرے گی۔
فلسطینی حکام نے یہ کہہ کر اس کا خیر مقدم کیا ہے کہ اس سے انصاف ملنے کے ساتھ ساتھ جوابدہی کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔ اسرائیل اس کا مخالف ہے اور وہ اس فیصلے کے لیے عدالت پر یہود دشمنی کا الزام عائد کرتا ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے گزشتہ ماہ اپنے ایک اہم فیصلے میں کہا تھا کہ سن 1967 کی جنگ کے بعد جن فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ہے، وہ علاقے اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور ایسے علاقوں سے متعلق بین الاقوامی فوجداری عدالت تحقیقات کر سکتی ہے۔ لیکن امریکا اور اسرائیل اس فیصلے سے سخت نالاں ہیں۔
جنگی جرائم کا ارتکاب
بن سودا کا کہنا ہے کہ ان کا محکمہ فلسطینی علاقوں میں ممکنہ جنگی جرائم سے متعلق گزشتہ تقریبا پانچ برسوں سے ابتدائی تفتیش میں مصروف رہا ہے اور اسی کی بنیاد پر اس کی باضابطہ تحقیق کا فیصلہ کیا گيا ہے۔
ان کا کہنا تھا،’’ بالآخر، ہماری مرکزی تشویش فلسطین اور اسرائیلی، دونوں سے متعلق ہونی چاہیے جو طویل عرصے کے تشدد اور عدم تحفظ سے پیدا ہونے والے جرائم سے متاثر ہوئے ہیں اور جس سے انہیں گہرا دکھ اور شدید مایوسی پہنچی کا سامنا ہے۔‘‘
مزيد فلسطينی علاقہ ضم کرنے کے اسرائيلی منصوبے پر احتجاج
01:30
ان کا مزید کہنا تھا،’’ میرا دفتر اس معاملے میں بھی وہی غیر جانبدارانہ اصول اور نقطہ نظر اپنائے گا جو اس نے دیگر ایسے تمام حالات میں اپنایا ہے اور جو اس کے دائرہ اختیار میں بھی آتے ہیں۔‘‘
بین الاقوامی فوجداری عدالت کی پراسیکیوٹر فاتو بن سودا نے دسمبر 2019 ء میں کہا تھا کہ سن 2014 کے دوران غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج نے جو کارروائیاں کی تھیں، اس سے متعلق جنگی جرائم کی تحقیقات کی 'معقول بنیاد‘ موجود ہے۔ انہوں کہا تھا کہ،'' یروشلم سمیت مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں جنگی جرائم سرزد ہوئے ہیں۔‘‘
انہوں نے اس کے لیے اسرائیلی فوج اور فلسطینی حماس گروپ کو ممکنہ ذمہ دار بتایا تھا۔ سن 2014 میں اسرائیلی فوج اور حماس کے درمیان ہونے والی لڑائی میں تقریباً 2000 فلسطینی اور 60 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔
اشتہار
اسرائیل کا رد عمل
اسرائیل نے آئی سی سی کے اس فیصلے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں عدالت پر منافقت اور سامیت دشمنی کا الزام عائد کرتے ہوئے سچ کے لیے لڑنے کی بات کی۔
اسرائیلی وزیر خارجہ گابی اشکینازی نے اسے '' اخلاقی اور قانونی دیوالیہ پن بتاتے ہوئے کہا اسرائیل اپنے شہریوں اور فوجیوں کو قانونی چارہ جوئی سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا،'' ٹریبیونل کو جو مینڈیٹ حاصل ہے اس کے تحت اسرائیل کے خلاف تحقیقات کرنے کا فیصلہ ایک استثنیٰ ہے اور اس متعصب ادارے کے ذریعے عالمی برادری کے وسائل کو ضائع کرنے کے مترادف ہے جو سارے قانونی جواز کھو چکا ہے۔‘‘
فلسطین کا رد عمل
فلسطینی اتھارٹی کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں آئی سی سی کے فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا،'' اس کا طویل عرصے سے انتظار تھا جو فلسطین کے انصاف اور جوابدہی کے لیے انتہک کوششوں کے مقصد کے عین مطابق ہے۔ فلسطینی عوام جس امن کے متلاشی اور مستحق ہیں، یہ اس کا ایک ناگزیر ستون ہے۔‘‘
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔
فلسطین نے اس کی جلد از جلد تحقیق کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا،’’ فلسطینی عوام کے خلاف قابض رہنماؤں کی طرف سے کیے جانے والے جرائم پائیدار، منظم اور دور رس ہیں۔‘‘
امریکا کی مخالفت
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا ہے کہ آئی سی سی کی پراسیکیوٹر کے اعلان سے واشنگٹن کو مایوسی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا،'' ہم اسرائیل کو نشانہ بنانے والے تمام اقدامات کی مخالفت کرنے کے ساتھ اسرائیل اور اس کی سکیورٹی کے تئیں اپنے مضبوط عزم کو جاری رکھیں گے۔ اس معاملے میں آئی سی سی کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔‘‘
عالمی برادری کا رد عمل
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ اسرائیلی اور فلسطینی متاثرین کے لیے انصاف کی جانب پہلا قدم ہے۔ تنظیم نے کہا،'' بین الاقوامی فوجداری عدالت کے رکن ممالک کو اب عدالت کے فیصلے کو سیاسی دباؤ سے بچانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘‘
ص ز/ ک م (روئٹرز، اے پی)
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔