فلسطینی عوام پندرہ سال بعد نئی پارلیمان اور نیا صدر چنیں گے
16 جنوری 2021
فلسطینی عوام قریب ڈیڑھ عشرے بعد اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے نئی پارلیمان اور نیا صدر منتخب کریں گے۔ موجودہ فلسطینی صدر محمود عباس نے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے انعقاد کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
اشتہار
مغربی کنارے کے علاقے، غزہ پٹی اور مشرقی یروشلم کا حوالہ دیتے ہوئے صدارتی حکم نامے میں کہا گیا کہ ان علاقوں کے تمام شہروں میں جمہوری انتخابی عمل کا آغاز کیا جائے گا۔ فلسطینی عوام رواں برس اکتیس جولائی کو نئے صدر کا انتخاب کریں گے جبکہ پارلیمانی انتخابات کے لیے بائیس مئی کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا 85 سالہ محمود عباس خود دوبارہ ان انتخابات میں حصہ لیں گے۔ گزشتہ برس کرائے گئے ایک سروے کے نتائج کے مطابق فلسطینی تنظیم حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو محمود عباس پر برتری حاصل تھی۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے انعقاد کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کر دیے۔تصویر: Thaier Ganaim/dpa/APA Images/ZUMA Wire/picture alliance
سن 1967 کی چھ روزہ عرب اسرائیلی جنگ کے دوران مشرقی یروشلم پر اپنے قبضے کے بعد اسرائیل نے اسے اپنا حصہ قرار دے دیا تھا تاہم عالمی برادری نے اس زبردستی الحاق کو تسلیم نہیں کیا اور اسے آج بھی مقبوضہ علاقہ سمجھا جاتا ہے۔
مشرقی یروشلم میں بھی عام انتخابات؟
گزشتہ چند سالوں کے دوران فلسطین علاقوں میں عام انتخابات کی منصوبہ بندی متعدد مرتبہ کی گئی لیکن کسی بھی حتمی صدارتی حکم نامے پر دستخط نہیں ہو سکے تھے۔ آخری مرتبہ سن 2019 کے اواخر میں ان انتخابات کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، جسے صدر عباس نے مشرقی یروشلم میں انتخابی عمل کے لیے اسرائیلی اجازت سے مشروط کر دیا تھا۔ لیکن اسرائیل کی جانب سے مشرقی یروشلم میں انتخابی عمل کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور اسرائیل نے وہاں فلسطینی حکام کی تمام تر سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
تصویر: DW/T. Krämer
فلسطینی خود مختار علاقوں میں آخری مرتبہ صدارتی انتخابات سن 2005 جبکہ پارلیمانی انتخابات سن 2006 میں کرائے گئے تھے۔ حماس نے ان عام انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی تھی اور ایک سال بعد حماس نے فتح تحریک کو غزہ پٹی کے علاقے سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اسی وقت سے فلسطینی علاقے غزہ پر حماس کی حکومت ہے جبکہ ویسٹ بینک کے علاقے پر فتح کو کنٹرول حاصل ہے۔ اس دوران مغربی کنارے میں واقع رملہ سے صدر محمود عباس فلسطینی اتھارٹی کی قیادت کرتے رہے ہیں۔
ایک طویل دشمنی کے بعد دونوں گروہوں کی جانب سے حالیہ چند مہینوں میں صلح کی کوششوں پر اتفاق کیا گیا۔ اسرائیل، امریکا اور یورپی یونین نے حماس کو شدت پسند تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
ع آ / م م (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔