1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطینی ’لائیوز میٹر‘

18 جون 2020

ایک آٹسٹک فلسطینی کی اسرائیلی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت پر فلسطینی اوراسرائیلی دونوں باشندے سراپا احتجاج بن گئے۔ مظاہرین اس واقعے کا امریکا میں افریقی امریکی باشندے جارج فلائڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت سے موازنہ کر رہے ہیں۔

Westjordanland Bethlehem | Protest nach Tod von Iyad al-Halaq, erschossen durch Polizei
تصویر: Reuters/M. Qawasma

 

32 سالہ ایاد الحلاق 30 مئی کو یروشلم کے پرانے شہر میں قائم 'اسپیشل چلڈرن‘ کے ایک اسکول میں رضاکارانہ طور پر خصوصی خدمات انجام دینے جا رہا تھا کہ اسرائیلی پولیس نے اس کا تعاقب کیا اور اسے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ پولیس کے مطابق اسے شبہ تھا کہ ایادالحلاق کی تحویل میں کوئی ہتھیار تھا جس کے ساتھ وہ اسکول کی طرف جا رہا تھا۔

خیری الحلاق نے اپنے بیٹے  ایاد الحلاق کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے کے بارے میں بتایا، ''میرا بیٹا سرنڈر کرتے ہوئے زمین پر ایسے لیٹ گیا تھا جیسے کوئی بچہ اپنی ماں کے رحم میں ہوتا ہے۔‘‘

بعد ازاں پولیس نے کہا کہ ایاد کے پاس سے کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوا۔

رانا الحلاق ایاد کی ماں ہے۔ اپنے آٹسٹک بیٹے کے قتل پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس نے  کہا، ''انہوں نے ایک معصوم نوجوان کا خون بہایا جس نے ابھی اپنی زندگی میں بہت جی تھی۔ وہ خدا کی سب سے کمزور مخلوق تھا۔‘‘

ایاد الحلاق کی ماں نے یہ بیان اپنے بیٹے کے کمرے میں کھڑے ہو کر دیے۔ اس کمرے میں ہر طرف ایاد کی چھوٹی چھوٹی معصوم ملکیت بکھری ہوئی تھی اور اس کا ایک پوسٹر بھی نصب تھا۔

اسرائیلی پولیس فائرنگ کی تحقیقات کر رہی ہے۔ پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ  دو پولیس افسران  گواہی بھی دے چکے ہیں۔
46 سالہ فلائڈ اور ایاد الحلاق کے کیسز میں مماثلت نظر آتی ہے۔ دونوں کا تعلق معاشرے کی ایسی برادریوں سے تھا جو اکثر و بیشتر پولیس کی بربریت اور نسل پرستی کا شکار ہونے کی شکایت کرتی ہیں۔

اس پہسٹر پر درج ہے:’معذوری کے شکار انسان سانس نہیں لے سکتے‘۔تصویر: Reuters/A. Awad

فلائڈ کی موت اس وقت ہوئی جب منیاپولیس کے ایک سفید فام پولیس افسر نے اپنا گھٹنا اس کی گردن پر رکھ کر قریب نو منٹ تک اُسے دبائے رکھا۔ دم گھٹنے کی شکایت کرتے کرتے سیاہ فام فلائڈ نے آخر کار دم توڑ دیا تھا۔ 25 مئی کو مبینہ قاتل پولیس آفسر کو حراست میں لیا گیا۔

جارج فلائڈغیر مسلح تھا اور اس کی بہیمانہ موت سے پوری دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور امریکا سمیت پوری دنیا میں نسل پرستانہ ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔


ایاد الحلاق کی موت پر احتجاج یروشلم، تل ابیب، بیت الحم اور غرب اردن میں مقامی باشندوں، جن میں فلسطینی اور اسرائیلی دونوں شامل تھے، نے سڑکوں پر نکل کر کیا۔

مشعل بردار مظاہروں میں 'پیلسٹینین لائیوز میٹر‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ یہ جارج فلائڈ کے بہیمانہ قتل کے خلاف اور افریقی امریکی عوام کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔

ایک فلسطینی فنکار تقی اسپوتین نے غرب اردن کے ایک علاقے میں اسرائیل کی جانب سے تعمیر شدہ کنکریٹ کی ایک دیوار پر فلائڈ اور ایاد کی رنگین تصویر بنائی۔ ایاد الحلاق کی تصویر پر اس نے انگریزی میں  لکھا، ''صرف فلائڈ نہیں ایاد الحلاق بھی‘‘۔ تقی اسپوتین کے بقول، ''دونوں افراد نسل پرستی کے تکبر  کی بھینٹ چڑھے۔‘‘

فلسطینی فنکار نے ایاد الحلاق کی یہ تصویر اسرائیل کی طرف سے تعمیر کردہ دیوار پر پنائی ہے۔تصویر: Reuters/M. Qawasma

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے  ایاد الحلاق کی موت پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے اس واقعے کو 'المیہ‘ قرار دیا۔

فلسطینی باشندے ایک طویل عرصے سے مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں اسرائیلی پولیس اور فوجی دستوں کے ہاتھوں خود کے خلاف مہلک طاقت کے استعمال کی شکایت کرتے آئے ہیں۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم خود اسرائیلی حقوق کے گروپ 'بی ٹی سلم‘  کا کہنا ہے کہ سن 2019  میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 133 فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں سے 56 کا کسی قسم کی دشمنی یا دہشت گردی میں کوئی حصہ نہیں تھا اور ان میں سے  28 نابالغ تھے۔

مغری بینک کے شہر رملہ میں فلسطینی حقوق کے لیے سرگرم ایک وکیل سلیم برہمہ نے کہا کہ  ان کا خیال ہے کہ ایاد کی موت کے جرم کے مرتکب اسرائیلی پولیس افسران کو ہلکی سزا دی جائے گی۔ اس وکیل کا کہنا تھا، ''لیکن ایک مناسب سزا؟ مجھے زیادہ امید نہیں ہے۔ یہ وہ انصاف نہیں ہوگا جس کا ایاد الحلاق مستحق ہے۔‘‘

ک م /ش ح (روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں