فلسطینی نوجوان کا قتل، متعدد انتہا پسند یہودی گرفتار
6 جولائی 2014نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی پولیس نے فلسطینی نوجوان محمد ابو خضیر کے اغوا اور قتل میں ملوث مشتبہ یہودی انتہاپسندوں کے ایک گروپ کو گرفتار کر لیا ہے۔ ایک اسرائیلی عہدے دار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’بظاہر اس کیس کے سلسلے میں، جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، ان کا تعلق ایک انتہا پسند یہودی گروپ سے ہے۔‘‘
اس سے قبل اسرائیلی اخبار ’حا آرتز‘ نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا تھا کہ اس کیس کے سلسلے میں چھ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ بدھ کے روز اس فلسطینی لڑکے کے اغوا اور قتل کے بعد سے عرب مشرقی یروشلم میں فسادات جاری ہیں۔ لیکن ہفتے کے روز فلسطینیوں کی طرف سے چھ سے زائد اسرائیلی عرب شہروں میں مظاہرے کیے گئے۔ اس سے پہلے اسرائیلی پولیس نے پہلی مرتبہ یہ اعتراف کیا تھا کہ اس ’قتل کے پس منظر میں قوم پرستانہ نظریات‘ کے اشارے سامنے آئے ہیں۔
گزشتہ روز فلسطینی اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ مقتول فلسطینی نوجوان محمد ابو خضیر کے پوسٹ مارٹم سے معلوم ہوا ہے کہ اسے ’زندہ جلا‘ کر ہلاک کیا گیا تھا۔ابوخضیر کا پوسٹ مارٹم اسرائیلی ڈاکٹروں نے کیا تھا۔ فلسطینی سرکاری خبر رساں ادارے وفا کے مطابق ابو خضیر کی سانس کی نالی اور پھیپھڑوں سے راکھ ملی تھی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسے زندہ جلایا گیا تھا۔ اس سے قبل تین اسرائیلی نوجوانوں کو بھی اغوا کرنے کے بعد فلسطین کے مغربی کنارے کے علاقے میں ہلاک کیا گیا تھا۔ سولہ سالہ خضیر کی ہلاکت کی اسرائیل سمیت، امریکا اور یورپی ممالک نے مذمت کی تھی۔
فلسطینی امریکی نوجوان رہا
دریں اثناء یروشلم کی ایک عدالت نے اس 15 سالہ امریکی فلسطینی لڑکے کو ضمانت پر رہا کر دیا ہے، جسے مبینہ طور پر پولیس کی حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ پندرہ سالہ طارق ابو خضیر فلسطینی نژاد امریکی شہری ہے اور فلوریڈا میں رہتا ہے۔ طارق ابو خضیر مقتول فلسطینی نوجوان محمد ابو خضیر کا کزن بھی ہے۔ طارق کو جمعرات کے روز مشرقی یروشلم کے علاقے شعفاط سے گرفتار کیا گیا تھا۔ طارق پر اسرائیلی پولیس پر پتھر پھینکنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
طارق کی ایسی تصاویر بھی منظر عام پر آئی ہیں، جن میں واضح طور پر اس کے سوجھے ہوئے چہرے پر پڑے ہوئے نیلے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں۔ طارق ابو خضیر کے والدین کے مطابق اسے پولیس کی حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان تصاویر کے منظر عام پر آنے کے بعد امریکی وزارت خارجہ نے ’سخت رد عمل‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ’انتہائی پریشان کن‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ طاقت کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی شدید مذمت کرتا ہے۔ پندرہ سالہ طارق چھٹیوں پر اپنے آبائی گھر یروشلم میں آیا ہوا تھا کہ اس کے کزن کو اغوا کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔ جس دن طارق کو گرفتار کیا گیا تھا، اس دن یو ٹیوب پر ایک ایسی ویڈیو بھی اپ لوڈ کی گئی تھی، جس میں اسرائیلی سرحدی فوجی ہتھکڑیوں والے ایک نیم بے ہوش لڑکے کو لاتوں اور مکوں سے مار پیٹ رہے ہیں۔ بعد ازاں اسرائیلی فوجی زمین پر پڑے ہوئے اس لڑکے کو گھسیٹ کر لے جاتے ہیں۔ اسرائیلی پولیس نے اس ویڈیو کی تصدیق کی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ آیا جس کو مارا جا رہا تھا، وہ امریکی فلسطینی طارق ہی تھا۔