فلسطینی وزیر اعظم رامی حمداللہ نے غزہ کے دورے کے دوران کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ پٹی کا انتظام سنبھال لے گی۔ گزشتہ دو برسوں میں ان کا یہ پہلا دورہ غزہ ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے فلسطینی اتھارٹی کے حوالے سے بتایا ہے کہ دو اکتوبر بروز پیر فلسطینی وزیر اعظم رامی حمد اللہ غزہ میں حماس کی قیادت سے ملیں گے۔ گزشتہ دس برسوں سے حماس غزہ پٹی کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے اور اس دوران حماس اور فلسطینی اتھارٹی کی حکمران سیاسی پارٹی فتح میں کافی کشیدگی بھی دیکھی گئی۔
تاہم اب حماس اس علاقے کو فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول میں دینے کا تیار ہو چکی ہے۔ حمد اللہ ان دونوں فلسطینی علاقوں کے دوبارہ اتحاد کے سلسلے میں غزہ کا دورہ کر رہے ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق حمداللہ اپنے درجن بھر وزراء کے ساتھ مغربی اردن سے جب غزہ پہنچے تو ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ فلسطینی وزیر اعظم نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ان کی حکومت پیر کے دن سے ہی غزہ کا انتظام سنبھالنے کے لیے ابتدائی کام شروع کر دے گی۔
فلسطینی وزیر اعظم حمد اللہ نے مزید کہا، ’’تقسیم کے خاتمے اور اتحاد کی خاطر ہم دوبارہ غزہ پہنچ چکے ہیں۔‘‘ اس موقع پر غزہ کے ہزاروں رہائشیوں نے حمد اللہ کو خوش آمدید بھی کہا۔
حماس نے سن دو ہزار سات میں زبردستی غزہ پٹی کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور تب سے اب تک ان دونوں فلسطین علاقوں کے رہنماؤں کے مابین مصالحت اور ثالثی کی متعدد کوششیں کی جا چکی ہیں۔ تاہم ان میں سے ابھی تک کوئی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔
شدت پسند نظریات کی حامل حماس تنظیم کی کارروائیوں کے باعث اسرائیل نے غزہ پٹی کا محاصرہ کر رکھا ہے جبکہ اس علاقے کے باسیوں کو متعدد اقسام کے مسائل کا سامنا ہے۔
اے ایف پی نے مقامی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ حمداللہ اس دورے کے دوران حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ اور غزہ کے سربراہ یحییٰ السنوار سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ کل بروز منگل کے دن وہ غزہ کی کابینہ سے بھی ملیں گے۔ اسی دوران غزہ پٹی کا انتظام باقاعدہ طور پر فلسطینی حکومت کے حوالے کرنے کے سلسلے میں باقاعدہ ایک تقریب کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔
غزہ کی سرنگیں
غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائی کا ایک اہم ہدف سرنگوں کو تباہ کرنا بھی ہے۔ حماس ان سرنگوں کو اسرائیل پر حملوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔ تاہم زیر زمین بنائےجانے والے یہ راستے دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/landov
خفیہ داخلی راستے
سرنگوں میں داخل ہونے کے اکثر راستے عام گھروں میں ہوتے ہیں کیونکہ انہیں بیرونی دنیا سے پوشیدہ رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ انہیں استعمال کرنے والوں کو محصول بھی ادا کرنا پڑتا ہے اور اس ر قم کا کچھ حصہ گھر کے مالک کو بھی جاتا ہے۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ غزہ کے باسی جو پیسہ سرنگوں کو استعمال کرنے پر خرچ کرتے ہیں، اسے کسی اور مقصد میں بھی لایا جا سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images
بقا کا راستہ یا اسمگلنگ کا ذریعہ؟
فلسطینیوں کی نظر میں یہ سرنگیں غزہ پٹی کی بقا کے لیے ضروری ہیں جبکہ اسرائیل کے خیال میں غزہ میں اسلحے کی ترسیل اور جنگجوؤں کی آمدورفت کے لیے بھی انہی سرنگوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ سینکڑوں یا پھر ہزاروں کی تعداد میں یہ سرنگیں غزہ اور بیرونی دنیا کے درمیان رابطے کا واحد ذریعہ ہیں۔ کم اونچائی والے ان راستوں سے جانوروں کو بھی لایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
پُر خطر تعمیر
ان زیر زمین سرنگوں کی تعمیر میں عام اوزار استعمال کیے جاتے ہیں یعنی بیلچے اور کدال وغیرہ۔ اس دوران لکڑیوں کے تختے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ بڑی سرنگوں میں سیمنٹ اور کنکریٹ بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ نوجوان فلسطینیوں کے لیے سرنگیں کھودنا روزگار کا ذریعہ بھی ہے۔ زمین کے سرکنے کی وجہ سے اکثر جان لیوا حادثات بھی رونما ہوتے ہیں۔
تصویر: Getty Images
تعمیراتی سامان کی ترسیل
فلسطینی غزہ پٹی کے مخدوش بنیادی ڈھانچے اور تعمیراتی کاموں کے لیے سیمنٹ اور دیگر ضروری اشیاءکی ترسیل کے لیے ان سرنگوں کو واحد ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ سرنگیں کپڑے اور ضروریات زندگی کے سامان کے علاوہ اسلحے کی منتقلی کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہیں۔
تصویر: DW/T. Krämer
بڑھتا ہوا رجحان
غزہ پٹی میں گزشتہ تیس برسوں سے سرنگوں کا نظام موجود ہے۔ 1979ء میں اسرائیل اور مصر کے مابین ہونے والے امن معاہدے کے بعد1982ء میں شہر رفاہ کو تقسیم کر دیا گیا۔ ایک حصہ مصر جبکہ دوسرا غزہ میں شامل ہو گیا تھا۔ اس منقسم شہر میں سامان کا تبادلہ سرنگوں کے ذریعے ہی ہوتا تھا اور اس کے بعد سے سرنگوں کا یہ جال پھیلتا ہی چلا گیا۔
تصویر: Getty Images
بہترین نیٹ ورک
کئی سرنگیں بہترین مواصلاتی نظام سے بھی لیس ہیں۔ بجلی کے علاوہ بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے ان میں ٹیلیفون تک کی سہولت بھی موجود ہے۔ مخصوص حالات میں حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے بھی ان سرنگوں میں پناہ لی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images
مصر بھی سرنگوں سے خائف
اسرائیل کے ساتھ ساتھ مصر بھی ان سرنگوں کے خلاف ہے۔ مصر کے جزیرہ نما سینائی میں کیے جانے والے اکثر حملوں کی ذمہ داری بھی حماس پر عائد کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے ملکی فوج گزشتہ کئی برسوں کے دوران متعدد سرنگوں کے اُن حصوں کو تباہ کر چکی ہے، جو مصر میں ہیں۔ سابق مصری صدر محمد مرسی کے دور میں بھی یہ سرنگیں تباہ کرنے کا سلسلہ جاری رہا تھا۔
تصویر: DW/S.Al Farra
زمین کے نیچے سے خطرہ
کچھ سرنگیں ایسی بھی ہیں، جن کے ذریعے اسرائیلی فوجیوں پر حملے بھی کیے گئے ہیں۔ شدت پسند فلسطینی کسی اسرائیلی چوکی یا چھاؤنی کے نیچے پہنچنے کے بعد زیر زمین دھماکے کرتے ہیں۔ 2004ء میں حماس کی جانب سے اسی طرح کے ایک حملے میں پانچ اسرائیلی فوجی ہلاک جبکہ دیگر دس زخمی ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images
غزہ میں کارروائی جاری
اسرائیلی ذرائع کے مطابق غزہ میں کی جانے والی کارروائی کے دوران اب تک درجنوں ایسی سرنگوں کا پتا چلا کر انہیں تباہ کیا جا چکا ہے۔ عالمی برادری کی اپیلوں کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو غزہ پر حملے جاری رکھنے پر بضد ہیں۔ ’’ہم اس وقت تک یہ کارروائی جاری رکھیں گے، جب تک تمام سرنگوں کو تباہ نہیں کر دیا جاتا۔‘‘