فلسطین کا اسرائیل کے ساتھ رابطہ بحال کرنے کا اعلان
19 نومبر 2020
فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ چھ ماہ سے معطل رابطہ بحال کرنے اور متحدہ عرب امارات اور بحرین میں اپنے سفیروں کو واپس بھیجنے کے فیصلہ کیا ہے۔
اشتہار
فلسطین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے پر متحدہ عرب امارات اور بحرین سے احتجاجاً واپس بلالیے گئے اپنے سفیروں کو واپس بھیجنے کے علاوہ اسرائیل کے ساتھ گزشتہ چھ ماہ سے معطل رابطے کو بھی بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے یہ فیصلہ ایسے وقت کیا ہے جب ایک اعلی امریکی عہدیدار اسرائیل کے دورے پر پہنچ رہے ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکہ کی ثالثی میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے معاہدوں کے بعد ان ملکوں سے اپنے سفیروں کو احتجاجاً واپس بلا لیا تھا۔ دوسری طرف انہوں نے مغربی کنارے کے علاقوں کو ضم کرنے کے اسرائیلی منصوبے کے خلاف اسرائیل کے ساتھ روابط معطل کردیے تھے۔
فلسطین کے شہری امور کے وزیر حسین الشیخ نے ٹویٹر پر ایک بیان میں کہا ہے کہ”محمود عباس کے بین الاقوامی رابطوں ...اور اسرائیل کی جانب سے موصول ہونے والے زبانی اور تحریری وعدوں کی روشنی میں ہم اسرائیل کے ساتھ 19 مئی 2020 سے پہلے کی سطح پر معمول کے تعلقات کو بحال کر رہے ہیں۔"
یہ اعلان ایسے وقت پر آیا ہے جب رخصت پذیر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو اسرائیل کا دورہ کرنے والے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امریکا اور فلسطین کے مابین تعلقات خراب رہے ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے فروری میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ مشرقِ اوسط امن منصوبہ کو مسترد کردیا تھا اور امریکا اور اسرائیل کے ساتھ ہر طرح کے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ انھوں نے اسرائیلی فورسز کے ساتھ سکیورٹی کے شعبے میں تعاون بھی ختم کر دیا تھا۔
حسین الشیخ کے اس اعلان سے قبل محمود عباس نے ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن کو صدارتی انتخابات میں ان کی کامیابی پر مبارک باد دی تھی اور کہا تھا کہ ان کی کامیابی کے بعد فلسطینی امریکی تعلقات میں بہتری کی امیدیں پیدا ہوگئی ہیں۔ نو منتخب صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ ان کی انتظامیہ اسرائیل کی طرف سے نئی بستیوں کی تعمیر کی مخالفت کے امریکی موقف کو بحال کر دے گی۔
اشتہار
روابط کی بحالی کا سبب کورونا
فلسطینی وزیر اعظم محمد اشتیہ نے کہا کہ ”ہم اسرائیلیوں کے ساتھ مالیاتی امور، صحت کے امور اور سیاسی امور پر رابطے بحال کر رہے ہیں۔"
انہوں نے خارجہ تعلقات سے متعلق امریکی کونسل کی جانب سے منعقد ایک ویڈیو کانفرنس میں کہا کہ ”یہ فیصلہ اسرائیل کی جانب سے موصول ہونے والے اس خط کے بعد کیا جا رہا ہے جس میں اس نے ہمارے ساتھ ماضی کے تمام معاہدوں کی پاسداری کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔"
مزيد فلسطينی علاقہ ضم کرنے کے اسرائيلی منصوبے پر احتجاج
01:30
انہوں نے کہا کہ ”یہ ہمارے لیے صحیح سمت میں ایک بہت اہم قدم ہے۔" انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ روابط بحال کرنے کا فیصلہ کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے صحت کے بحران سے نمٹنے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ کیونکہ ”ہماری اور اسرائیلیوں کی زندگیاں باہم مربوط ہیں۔ اس لیے ہم خود سے تن تنہا اس وائرس سے نہیں نمٹ سکتے۔“
فلسطینی وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ یہ پیش رفت اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دیگر ملکوں کی مداخلت کے سبب ہوئی ہے۔
’پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا‘
دریں اثنا اسلام پسند گروپ حماس نے فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی معطلی کو ختم کرنے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ خیال رہے کہ غزہ پٹی کے انتظامی امور حماس کے ہاتھوں میں ہے۔
حماس نے کہا کہ یہ قدم محمودعباس کے مغربی کنارے کی انتظامیہ اور حماس کے درمیان مفاہمت کی کوششوں کے لیے'پیٹھ میں چھرا گھونپنے‘ کے مترادف ہے۔ حماس نے مزید کہا کہ بائیڈن فلسطینی علاقے پر نصف صدی پرانے اسرائیلی قبضے کو ختم نہیں کرا دیں گے۔‘
دریں اثنا اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ ان کی بائیڈن کے ساتھ گزشتہ منگل کے روز 'پرجوش‘ بات چیت رہی اور نو منتخب امریکی صدر نے اسرائیلی ریاست اور اس کی سکیورٹی کے حوالے سے اپنے گہرے عزم و ارادے کا اعادہ کیا۔ دونوں رہنماوں نے جلد ہی ملاقات کرنے اور متعدد امور پر تبادلہ خیال کرنے پر رضامندی بھی ظاہر کی ہے۔
ج ا / ص ز (روئٹرز،اے ایف پی)
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا قیام 1948 میں عمل میں آیا تھا۔ اس بات کو سات دہائیوں سے زائد وقت گزر چکا ہے مگر اب بھی دنیا کے بہت سے ممالک نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہ ممالک کون سے ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kahana
1. افغانستان
افغانستان نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک نہ تو اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ سن 2005 میں اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے عندیہ دیا تھا کہ اگر الگ فلسطینی ریاست بننے کا عمل شروع ہو جائے تو اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ممکن ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
2. الجزائر
عرب لیگ کے رکن شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک الجزائر اسرائیل کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتا اس لیے دونوں کے مابین سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ الجزائر سن 1962 میں آزاد ہوا اور اسرائیل نے اسے فوری طور پر تسلیم کر لیا، لیکن الجزائر نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر الجزائر کا سفر ممکن نہیں۔ سن 1967 کی جنگ میں الجزائر نے اپنے مگ 21 طیارے اور فوجی مصر کی مدد کے لیے بھیجے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/A. Widak
3. انڈونیشیا
انڈونیشیا اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی، سیاحتی اور سکیورٹی امور کے حوالے سے تعلقات موجود ہیں۔ ماضی میں دونوں ممالک کے سربراہان باہمی دورے بھی کر چکے ہیں۔ سن 2012 میں انڈونیشیا نے اسرائیل میں قونصل خانہ کھولنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن اب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rante
4. ايران
اسرائیل کے قیام کے وقت ایران ترکی کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم اکثریتی ملک تھا۔ تاہم سن 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی۔ ایران اسرائیل کو اب تسلیم نہیں کرتا اور مشرق وسطیٰ میں یہ دونوں ممالک بدترین حریف سمجھے جاتے ہیں۔
تصویر: khamenei.ir
5. برونائی
برونائی کا شمار بھی ان قریب دو درجن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک اسے تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے باہمی سفارتی تعلقات ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Rani
6. بنگلہ دیش
بنگلہ دیش نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ جب تک آزاد فلسطینی ریاست نہیں بن جاتی تب تک ڈھاکہ حکومت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اسرائیل نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کی حمایت کی تھی اور اس کے قیام کے بعد اسے تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں اسرائیل کا شمار بھی ہوتا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
7. بھوٹان
بھوٹان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں اور نہ ہی وہ اسے تسلیم کرتا ہے۔ بھوٹان کے خارجہ تعلقات بطور ملک بھی کافی محدود ہیں اور وہ چین اور اسرائیل سمیت ان تمام ممالک کو تسلیم نہیں کرتا جو اقوام متحدہ کے رکن نہیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
8. پاکستان
پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ پر یہ بھی درج ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔ عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے اسرائیل کے خلاف عسکری مدد روانہ کی تھی اور اسرائیل نے مبینہ طور پر پاکستانی جوہری منصوبہ روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔ پاکستان نے بھی دو ریاستی حل تک اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
9. جبوتی
جمہوریہ جبوتی عرب لیگ کا حصہ ہے اور اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم 50 برس قبل دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔
تصویر: DW/G.T. Haile-Giorgis
10. سعودی عرب
سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ نہ تو باقاعدہ سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی اب تک اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران تاہم دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری دکھائی دی ہے۔ سعودی شاہ عبداللہ نے سن 2002 میں ایک ہمہ جہت امن منصوبہ تجویز کیا لیکن تب اسرائیل نے اس کا جواب نہیں دیا تھا۔ سعودی عرب نے اسرائیل اور یو اے ای کے تازہ معاہدے کی حمایت یا مخالفت میں اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
ہمسایہ ممالک اسرائیل اور شام عملی طور پر اسرائیل کے قیام سے اب تک مسلسل حالت جنگ میں ہیں اور سفارتی تعلقات قائم نہیں ہو پائے۔ دونوں ممالک کے مابین تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ علاوہ ازیں شام کے ایران اور حزب اللہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں۔ اسرائیل خود کو لاحق خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے شام میں کئی ٹھکانوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔
شمالی کوریا نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس شمالی کوریا نے سن 1988 میں فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
13. صومالیہ
افریقی ملک صومایہ بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی دونوں کے باہمی سفارتی تعلقات وجود رکھتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/Y. Chiba
14. عراق
عراق نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد ہی عراق نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ عراقی کردوں نے تاہم اپنی علاقائی حکومت قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
تصویر: DW
15. عمان
عرب لیگ کے دیگر ممالک کی طرح عمان بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا تاہم سن 1994 میں دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کیے تھے جو سن 2000 تک برقرار رہے۔ دو برس قبل نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل وفد نے عمان کا دورہ کیا تھا۔ عمان نے اماراتی اسرائیلی معاہدے کی بھی حمایت کی ہے۔ اسرائیلی حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ عمان بھی جلد ہی اسرائیل کے ساتھ ایسا معاہدہ کر لے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
16. قطر
قطر اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اب تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات رہے ہیں۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر قطر کا سفر نہیں کیا جا سکتا لیکن سن 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کے لیے اسرائیلی شہری بھی قطر جا سکیں گے۔ اماراتی فیصلے کے بارے میں قطر نے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
17. کوموروس
بحر ہند میں چھوٹا سا افریقی ملک جزر القمر نے بھی ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ عرب لیگ کے رکن اس ملک کے تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔
18. کویت
کویت نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تاریخی امن معاہدے کے بارے میں کویت نے دیگر خلیجی ریاستوں کے برعکس ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Gambrell
19. لبنان
اسرائیل کے پڑوسی ملک لبنان بھی اسے تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین مسلسل جھڑپوں کے باعث اسرائیل لبنان کو دشمن ملک سمجھتا ہے۔ اسرائیل نے سن 1982 اور سن 2005 میں بھی لبنان پر حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. A. Akman
20. لیبیا
لیبیا اور اسرائیل کے مابین بھی اب تک سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔
21. ملائیشیا
ملائیشیا نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ علاوہ ازیں ملائیشیا میں نہ تو اسرائیلی سفری دستاویزت کارآمد ہیں اور نہ ہی ملائیشین پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات قائم ہیں۔
تصویر: Imago/Zumapress
22. یمن
یمن نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی سفارتی تعلقات قائم کیے۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور یمن میں اسرائیلی پاسپورٹ پر، یا کسی ایسے پاسپورٹ پر جس پر اسرائیلی ویزا لگا ہو، سفر نہیں کیا جا سکتا۔