متحدہ عرب امارات اور بحرین واشنگٹن میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے متعلق معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں۔ لیکن اب فلسطینی نئے اتحادیوں کی تلاش میں ہیں جو کہ بظاہر ایک مشکل عمل دکھائی دے رہا ہے۔
اشتہار
رواں ہفتے کے آغاز پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے وزرائے خارجہ سے واشنگٹن میں ملاقات کی تاکہ ان ممالک کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے پر دستخط کیے جائیں۔ اس معاہدے پر دستخط ہوتے ہی غزہ پٹی سے اسرائیل کی جانب پندرہ راکٹ داغے گئے۔ اسرائیلی فضائیہ نے غزہ ميں حماس کے مختلف فوجی اہداف پر حملے کرتے ہوئے جوابی کارروائی بھی کی۔
اس دوران مغربی کنارے میں فلسطینیوں نے امارات اور بحرین کے ساتھ اسرائیلی معاہدے پر زیادہ تر پر سکون انداز میں رد عمل ظاہر کيا۔ راملہ میں جرمنی کی کونراڈ آڈے ناؤر فاؤنڈيشن کے سربراہ اسٹیون ہؤفنر کے مطابق راملہ میں لگ بھگ 150 افراد پر مشتمل چھوٹے مظاہرے کیے گئے جبکہ پورے علاقے میں سینکڑوں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ ہؤفنر کے بقول، ’’زیادہ تر فلسطینی یہ محسوس کرتے ہیں کہ عرب دنیا فلسطینی عوام کی پرواہ نہیں کرتی۔‘‘
مثال کے طور پر عرب لیگ کے آخری سربراہی اجلاس کے دوران اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین ہونے والے معاہدے کی مذمت کرنے یا نہ کرنے پر بات چيت ہوئی۔ حالانکہ فلسطینیوں نے اس کی مذمت کے لیے عرب لیگ پر زور دیا تھا۔ ہؤفنر نے کہا، ’’اس سے فلسطینیوں کے درمیان احساس تنہائی میں مزید اضافہ ہوا۔‘‘
ایران کی حمایت
تاہم ایرانی صدر حسن روحانی نے امارات-بحرین-اسرائیل معاہدے پر بھرپور تنقید کی۔ صدر روحانی نے حال ہی میں متحدہ عرب امارات اور بحرین سے پوچھا، ’’آپ کا عرب اِزم کہاں ہے، فلسطین میں ہونے والے [اسرائیلی] مبينہ جرائم کے بارے میں آپ کے تحفظات کہاں ہیں اور اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ آپ کی یکجہتی کہاں ہے؟‘‘
ایران کے مؤقف کے بارے میں فلسطین کے مختلف علاقوں میں الگ الگ رائے پائی جاتی ہے۔ ہؤفنر کے مطابق، مغربی کنارے میں یہ بات اہم نہیں کہ ایران کیا کہہ رہا ہے، لیکن غزہ پٹی میں حماس اور اسلامک جہادی تحریک کے حمایتی ایران کے ساتھ اتحاد یا پھر قریبی تعلقات کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مغربی کنارے کے رہائشیوں کی ایران کے ساتھ قریبی تعلقات ميں ہچکچاہٹ کی وجہ مذہبی حکومت ہے۔ عرب دنیا میں مذہبی حلقوں کی حکومتی انتظام میں عمل دخل کے حوالے سے رائے انتہائی منقسم ہے۔ اور پھر، ایران کی طرف قدم بڑھانے سے اس بات کا خدشہ ہوگا کہ امریکا انتقامی کارروائی میں فلسطینیوں پر بالواسطہ یا بلاواسطہ دباؤ ڈال سکتا ہے۔
یورپی یونین کے رکن ممالک بھی فلسطین کے ایران کی جانب جھکاؤ کو مسترد کر دیں گے۔ اگر دونوں فریق اسرائیل کے خلاف اتحاد قائم کرتے ہیں تو خاص طور پر جرمنی اس پر ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔
ترکی کے ساتھ جوکھم بھری شراکت داری
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اپنی طرف سے بحرین اور اسرائیل کے مابین طے ہونے والے معاہدے پر نقطہ چینی کی کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ترک صدر کے بقول، ’’[یہ فیصلہ] اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف غیر قانونی کارروائیوں کو جاری رکھنے کی ترغیب دے گا۔‘‘ اس سے قبل، ایردوآن نے متحدہ عرب امارات کے خلاف بھی اسی طرح کی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مشرق وسطی کے لوگ امارات کے ’منافقانہ سلوک‘ کو کبھی ’نہیں بھولیں گے۔‘
فلسطینی علاقوں میں تہران کے مقابلے میں انقرہ کی بیان بازی کا زیادہ اثر دکھائی دے رہا ہے۔ ہؤفنر کے مطابق فلسطین میں بہت سے لوگ ترکی سے امیدیں وابستہ کر رہے ہیں اور ترکی کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھتے ہیں جو مسئلہ فلسطین کو مؤثر انداز میں پیش کرنے کی سیاسی وقعت رکھتا ہے۔
لیکن فی الحال ترکی کو خارجی سطح پر مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ وہ ایک طرف بحیرہ روم میں قدرتی گیس کے ذخائر پر یونان سے تنازعے میں گھرا ہوا ہے تو دوسری جانب شمالی شام میں کرد تنظیموں سے لڑ رہا ہے اور لیبیا میں اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ وزیراعظم فائز سراج کے ساتھ مل کر لڑائی میں بھی شامل ہے۔ لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا ترکی میں میں اتنی صلاحیت باقی ہے کہ وہ اپنا وزن فلسطینیوں کے پیچھے ڈال سکے۔ اس کے علاوہ یورپی یونین بھی ترکی- فلسطین اتحاد پر ابہام کا شکار رہے گی۔
قطر اور روس سے امیدیں
مشرق وسطیٰ میں بدلتے ہوئے طاقت کے توازن کے پیش نظر فلسطینی عوام یہ امید کر رہے ہیں کہ روس اور قطر مسئلہ فلسطین کے حل میں کردار ادا کرسکیں گے۔ لیکن، ماسکو اور تل ابیب کے درمیان پہلے سے ہی دوستانہ تعلقات قائم ہیں، دونوں ملکوں کی فوج شامی علاقوں میں کافی سرگرم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کے لیے تکنیکی اور اسٹریٹجک سطح پر قریبی تعاون کو برقرار رکھنا لازمی ہے۔ اس صورتحال میں فلسطينی حلقوں میں يہ امید پائی جاتی ہے کہ روس اسرائیل کے ساتھ بہتر تعلقات کے تحت فلسطینیوں کے مفاد میں کردار ادا کر سکتا ہے۔
دوسری جانب قطر نے ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ مشاورت کے تحت اپنی طرف سے غزہ پٹی میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ ہؤفنر کے بقول، ’’بہت سے فلسطینیوں کی نظر میں قطر کی یہ شمولیت، اس کو مستقبل میں اسرائیل کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں ایک ممکنہ ثالث بنا سکتی ہے۔‘‘ تاہم ، اب تک، یہ امیدیں ادھوری ہیں۔
اشتہار
سعودی عرب، ایک حلیف تھا
بہت سے فلسطینی ایک طویل عرصے سے سعودی عرب کو ایک قابل اعتماد حلیف سمجھتے تھے۔ سعودی بادشاہ شاہ سلمان برسوں سے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ امکان خارج نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے بیٹے اور تخت کے وارث ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان فلسطین کی حمایت میں اسی مؤقف کو برقرار رکھیں گے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے متعدد گفتگو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر مشیر جیرڈ کُشنر کو اشارہ دیا کہ انہوں نے اسرائیل - عرب تعلقات کو معمول پر لانے ميں کردار ادا کيا ہے۔ فی الوقت، سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کی کھلی شراکت داری کرنے سے گریز کیا ہے۔
فلسطینی سینٹر فار پیس اینڈ سروے ریسرچ کے حالیہ سروے کے مطابق 80 فیصد فلسطینیوں کے خیال میں سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات کو اسرائیل کےساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے بڑھاوا دیا تھا جبکہ 82 فیصد رائے دہندگان سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب بھی بہت جلد اس معاہدے کی پیروی کرے گا۔
فلسطین میں سیاسی اصلاحات کی ضرورت
فلسطینی سیاسی جماعت فتح، مغربی کنارے پر حکومت کرتی ہے جبکہ غزہ کا کنٹرول حماس کے پاس ہے۔ دونوں فلسطینی علاقوں کے لیے متحدہ قیادت کے قیام کے لیے اپنے اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاسی اصلاحات اور پارلیمانی انتخابات میں تاخیر کے ساتھ اس مقصد کے حصول میں بہت زیادہ وقت لگے گا۔ فلسطین میں آخری انتخابات 2006 میں منعقد ہوئے تھے۔
راملہ میں فتح سے منسلک مقامی اخبار ال ایام میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق فلسطینیوں کو عرب دنیا میں دوبارہ اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے آپسی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا۔ اس اخبار نے لکھا، ’’ہمارے اختلافات کچھ ممالک کو ہمارے مؤقف سے دستبردار ہونے اور فلسطینی عوام کے مفادات کے برعکس کام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ساتھ مضمون میں خبردار کیا گیا، ’’اگر ہم اس رجحان کو روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں خود سے آغاز کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر ہم اور بھی اثر و رسوخ کھو دیں گے اور خود کو تنہا کردیں گے۔‘‘
کیرسٹن کِنپ / عرفان آفتاب
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا قیام 1948 میں عمل میں آیا تھا۔ اس بات کو سات دہائیوں سے زائد وقت گزر چکا ہے مگر اب بھی دنیا کے بہت سے ممالک نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہ ممالک کون سے ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kahana
1. افغانستان
افغانستان نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک نہ تو اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ سن 2005 میں اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے عندیہ دیا تھا کہ اگر الگ فلسطینی ریاست بننے کا عمل شروع ہو جائے تو اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ممکن ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
2. الجزائر
عرب لیگ کے رکن شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک الجزائر اسرائیل کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتا اس لیے دونوں کے مابین سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ الجزائر سن 1962 میں آزاد ہوا اور اسرائیل نے اسے فوری طور پر تسلیم کر لیا، لیکن الجزائر نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر الجزائر کا سفر ممکن نہیں۔ سن 1967 کی جنگ میں الجزائر نے اپنے مگ 21 طیارے اور فوجی مصر کی مدد کے لیے بھیجے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/A. Widak
3. انڈونیشیا
انڈونیشیا اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی، سیاحتی اور سکیورٹی امور کے حوالے سے تعلقات موجود ہیں۔ ماضی میں دونوں ممالک کے سربراہان باہمی دورے بھی کر چکے ہیں۔ سن 2012 میں انڈونیشیا نے اسرائیل میں قونصل خانہ کھولنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن اب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rante
4. ايران
اسرائیل کے قیام کے وقت ایران ترکی کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم اکثریتی ملک تھا۔ تاہم سن 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی۔ ایران اسرائیل کو اب تسلیم نہیں کرتا اور مشرق وسطیٰ میں یہ دونوں ممالک بدترین حریف سمجھے جاتے ہیں۔
تصویر: khamenei.ir
5. برونائی
برونائی کا شمار بھی ان قریب دو درجن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک اسے تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے باہمی سفارتی تعلقات ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Rani
6. بنگلہ دیش
بنگلہ دیش نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ جب تک آزاد فلسطینی ریاست نہیں بن جاتی تب تک ڈھاکہ حکومت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اسرائیل نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کی حمایت کی تھی اور اس کے قیام کے بعد اسے تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں اسرائیل کا شمار بھی ہوتا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
7. بھوٹان
بھوٹان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں اور نہ ہی وہ اسے تسلیم کرتا ہے۔ بھوٹان کے خارجہ تعلقات بطور ملک بھی کافی محدود ہیں اور وہ چین اور اسرائیل سمیت ان تمام ممالک کو تسلیم نہیں کرتا جو اقوام متحدہ کے رکن نہیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
8. پاکستان
پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ پر یہ بھی درج ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔ عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے اسرائیل کے خلاف عسکری مدد روانہ کی تھی اور اسرائیل نے مبینہ طور پر پاکستانی جوہری منصوبہ روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔ پاکستان نے بھی دو ریاستی حل تک اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
9. جبوتی
جمہوریہ جبوتی عرب لیگ کا حصہ ہے اور اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم 50 برس قبل دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔
تصویر: DW/G.T. Haile-Giorgis
10. سعودی عرب
سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ نہ تو باقاعدہ سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی اب تک اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران تاہم دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری دکھائی دی ہے۔ سعودی شاہ عبداللہ نے سن 2002 میں ایک ہمہ جہت امن منصوبہ تجویز کیا لیکن تب اسرائیل نے اس کا جواب نہیں دیا تھا۔ سعودی عرب نے اسرائیل اور یو اے ای کے تازہ معاہدے کی حمایت یا مخالفت میں اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
ہمسایہ ممالک اسرائیل اور شام عملی طور پر اسرائیل کے قیام سے اب تک مسلسل حالت جنگ میں ہیں اور سفارتی تعلقات قائم نہیں ہو پائے۔ دونوں ممالک کے مابین تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ علاوہ ازیں شام کے ایران اور حزب اللہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں۔ اسرائیل خود کو لاحق خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے شام میں کئی ٹھکانوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔
شمالی کوریا نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس شمالی کوریا نے سن 1988 میں فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
13. صومالیہ
افریقی ملک صومایہ بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی دونوں کے باہمی سفارتی تعلقات وجود رکھتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/Y. Chiba
14. عراق
عراق نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد ہی عراق نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ عراقی کردوں نے تاہم اپنی علاقائی حکومت قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
تصویر: DW
15. عمان
عرب لیگ کے دیگر ممالک کی طرح عمان بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا تاہم سن 1994 میں دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کیے تھے جو سن 2000 تک برقرار رہے۔ دو برس قبل نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل وفد نے عمان کا دورہ کیا تھا۔ عمان نے اماراتی اسرائیلی معاہدے کی بھی حمایت کی ہے۔ اسرائیلی حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ عمان بھی جلد ہی اسرائیل کے ساتھ ایسا معاہدہ کر لے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
16. قطر
قطر اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اب تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات رہے ہیں۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر قطر کا سفر نہیں کیا جا سکتا لیکن سن 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کے لیے اسرائیلی شہری بھی قطر جا سکیں گے۔ اماراتی فیصلے کے بارے میں قطر نے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
17. کوموروس
بحر ہند میں چھوٹا سا افریقی ملک جزر القمر نے بھی ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ عرب لیگ کے رکن اس ملک کے تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔
18. کویت
کویت نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تاریخی امن معاہدے کے بارے میں کویت نے دیگر خلیجی ریاستوں کے برعکس ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Gambrell
19. لبنان
اسرائیل کے پڑوسی ملک لبنان بھی اسے تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین مسلسل جھڑپوں کے باعث اسرائیل لبنان کو دشمن ملک سمجھتا ہے۔ اسرائیل نے سن 1982 اور سن 2005 میں بھی لبنان پر حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. A. Akman
20. لیبیا
لیبیا اور اسرائیل کے مابین بھی اب تک سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔
21. ملائیشیا
ملائیشیا نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ علاوہ ازیں ملائیشیا میں نہ تو اسرائیلی سفری دستاویزت کارآمد ہیں اور نہ ہی ملائیشین پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات قائم ہیں۔
تصویر: Imago/Zumapress
22. یمن
یمن نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی سفارتی تعلقات قائم کیے۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور یمن میں اسرائیلی پاسپورٹ پر، یا کسی ایسے پاسپورٹ پر جس پر اسرائیلی ویزا لگا ہو، سفر نہیں کیا جا سکتا۔