ہالی وُوڈ کے پروڈيوسر ہاروی وائن اسٹائن کے وکيل نے ايک برطانوی اخبار کو ديے اپنے ايک انٹرويو ميں کہا ہے کہ فلمی کيريئر ميں آگے بڑھنے کے ليے پروڈيوسر کے ساتھ جنسی روابط رکھنے کو جنسی زيادتی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اشتہار
بين بارفمين نے کہا، ’’اگر کوئی عورت يہ فيصلہ کرتی ہے کہ فلمی کيريئر ميں آگے بڑھنے کے ليے اُسے ہالی وُوڈ کے کسی پروڈيوسر کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا پڑے گا اور پھر وہ ايسا کر لينے کے بعد پورے معاملے سے نالاں ہے، تو يہ جنسی زيادتی کے زُمرے ميں نہيں آتا۔‘‘ انہوں نے يہ بيان ’دا ٹائمز‘ نامی اخبار کو ديا، جسے ہفتے کے روز شائع کيا گيا۔ بارفمين کے بقول متعلقہ خاتون يا خواتين نے دانستہ طور پر ايک ايسا فيصلہ کيا، جو گرچہ انہيں پسند نہيں ليکن ايسا انہوں نے ذاتی رضامندی سے اپنے کيرئير ميں کامیابی کے لیے کيا۔
يہ امر اہم ہے کہ ہالی ووڈ کے معروف فلم پروڈيوسر ہاروی وائن اسٹائن پر ايشلی جُوڈ، گيونتھ پيلتھرو، کيٹ بيکنسيل اور سلمہ ہائک سميت ديگر کئی معروف اداکاراؤں نے جنسی نوعيت کے مختلف الزامات لگائے ہيں۔ وائن اسٹائن دو شادياں کر چکے ہيں اور ان کی بچوں کی تعداد پانچ ہے۔ ان دنوں برطانوی اور امريکی پوليس ان کے خلاف جنسی استحصال کے متعدد الزامات کی تحقيقات کر رہی ہيں تاہم فی الحال ان پر باقاعدہ فرد جرم عائد نہيں کيی گئی ہے۔ ہاروی وائن اسٹائن کسی بھی خاتون کے ساتھ اس کے مرضی کے خلاف جنسی روابط قائم کرنے کی ترديد کرتے ہيں۔
خبر رساں ادارے اے ايف پی کے رپورٹوں کے مطابق وائن اسٹائن کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور جنسی زيادتی کے الزامات کا سامنا ہے۔ انہوں نے اپنے دفاع کے ليے بين بارفمين کی خدمات حاصل کی ہيں، جن کا شمار امريکا کے چوٹی کے فوجداری یا کریمنل وکلاء ميں ہوتا ہے۔
ہاروی وائن اسٹائن کے خلاف پچھلے سال لگائے گئے ايسے الزامات سے عالمی سطح پر جنسی نوعيت کے جرائم کے خلاف اقدامات کو تحريک ملی اور پچھلے دنوں ہونے والی ايوارڈز کی مختلف تقاريب ميں يہ معاملہ منظر عام پر آتا رہا۔ کہيں ہالی ووڈ سے وابستہ خواتين فنکاروں نے احتجاجاً سياح لباس زيب تن کيا تو کہيں مظاہرے کيے گئے۔
وائن اسٹائن کے وکيل بارفمين کے بقول ان کے موکل کا رويہ فلمی صنعت ميں پہلے سے موجود ايک رجحان کی عکاسی تو ضرور کرتا ہے تاہم وہ ’کاسٹنگ کاؤچ‘ کے موجد نہيں۔ فلمی دنيا کے سب سے معتبر اور بڑے آسکر ايوارڈز کی تقريب اتوار کو منعقد ہو رہی ہے اور وائن اسٹائن اس بار اس تقريب ميں شريک نہيں ہو سکتے۔ ان کے خلاف احتجاج کی علامت کے طور پر مختلف فنکاروں نے ان کا ايک مجسمہ بنايا ہے، جس ميں وہ ’کاسٹنگ کاؤچ‘ پر ايوارڈ پکڑے بيٹھے ہيں۔
وويمن مارچ 2018 : شرکاء کی تعداد کم مگر ہمت و حوصلہ زيادہ
امريکا کے متعدد شہروں ميں عورتوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت اور اپنے حقوق کے تحفظ کے ليے بيس جنوری کو ريلياں نکاليں۔ يہ ملک گير احتجاجی ريلياں، ٹرمپ کے منصب صدارت پر براجمان ہونے کے ایک سال مکمل ہونے پر نکالی گئیں۔
تصویر: Getty Images/S. Platt
امريکا اور کئی ديگر ملکوں ميں احتجاجی ريلياں
امريکا کے تقريباً ڈھائی سو شہروں کے علاوہ دنيا بھر ميں کئی اور مقامات پر ہفتہ بيس جنوری کو ہزاروں کی تعداد ميں عورتوں نے ريلياں نکاليں۔ ريليوں ميں اکثريتی طور پر خواتين نے حصہ ليا تاہم ايک بڑی تعداد ميں مرد بھی عورتوں کی حمايت ميں سڑکوں پر نکلے۔ گزشتہ برس کی وويمن مارچ ميں قريب پانچ ملين افراد نے شرکت کی تھی۔ تاہم اس سال مارچ ميں شرکت کرنے والی عورتوں کی تعداد پچھلے سال کے مقابلے ميں کافی کم رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ralston
ہر طرف ’پُسی ہيٹس‘
مارچ شرکاء نے ٹرمپ کی پاليسيوں اور مبينہ نسل پرستانہ اقدامات پر احتجاج کيا اور عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے ليے بھی اپنی آوازيں بلند کيں۔ شرکاء کی ايک بڑی تعداد نے احتجاج ميں گلابی رنگ کی ايک مخصوص طرز کی ٹوپياں پہن رکھی تھيں۔ صدر ٹرمپ نے پچھلے سال کی مارچ سے قبل ايک متنازعہ بات کہی تھی، جس کے نتيجے ہی ميں يہ ’پُسی ہيٹس‘ صدر کے بيان کے خلاف عورتوں کے احتجاج کی علامت کے طور پر سامنے آئيں۔
تصویر: Reuters/B. Snyder
مارچ کے رد عمل ميں ٹرمپ کا طنزيہ ٹوئٹر پيغام
عورتوں کی اس مارچ کے رد عمل ميں صدر ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹر پيغام ميں طنزيہ انداز ميں لکھا، ’’آج ہمارے پورے ملک ميں بہترين موسم ہے، عورتوں کی مارچ کے ليے ايک موزوں دن۔ اب وہ سڑکوں سے دور ہٹ جائيں تاکہ پچھلے ايک سال ميں سامنے آنے والے تاريخی سنگ ميل، اقتصادی ترقی اور دولت اکھٹی کرنے کے عوامل پر خوشی منائی جا سکے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Brandon
مارچ کے مقاصد کيا ہيں؟
منتظمين کی کوشش ہے کہ امريکا ميں اس سال نومبر ميں ہونے والے مڈ ٹرم اليکشن ميں ترقی پسندانہ سوچ کے حامل اميدوار آگے آ سکيں اور ايسی ريليوں کے ذريعے ٹرمپ کی مخالفت اور مطلوبہ اميدواروں کی حمايت ميں اضافہ ہو سکے۔ ’وويمن مارچ‘ کے منتظمين انتخابات تک ايک ملين اضافی ووٹروں کو رجسٹر کرانا بھی چاہتے ہيں تاکہ حکومت ميں ايسے افراد اور قوتيں شامل ہو سکيں جو عورتوں کے حقوق کے تحفظ ميں بہتر کردار ادا کر سکيں۔
تصویر: picture-alliance/Newscom/J. Middlebrook
مارچ اور ريلياں دوسرے روز بھی جاری
امريکا کے کئی بڑے شہروں ميں اتوار کے روز بھی ريلياں نکالی جا رہی ہيں۔ لاس ويگاس مڈ ٹرم کانگريشنل اليکشن ميں ايک اہم مقام ہے اور اسی وجہ سے اکيس جنوری کو وہاں چند تقريبات منعقد ہو رہی ہيں۔ اس کے علاوہ اتوار کو ميامی، آسٹريلوی شہر ميلبورن اور جرمن شہر ميونخ ميں بھی ایسی ریلیوں کی منصوبہ بندی کی گئی وہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com/L. Lizana
عورتوں کی آواز کا اہم سال
سن 2018 کی ’وويمن مارچ‘ اس ليے بھی اہم ہے کہ پچھلا ايک سال متعدد مہمات کے سبب عورتوں کے حوالے سے کافی اہم ثابت ہوا۔ #Metoo کے ہيش ٹيگ کے ساتھ عورتوں نے جنسی طور پر ہراساں کيے جانے کے اپنے تجربات پر آواز اٹھائی۔ گزشتہ برس ہی ہالی ووڈ ميں کئی معروف اداکاراؤں کو جنسی طور پر ہراساں کيے جانے کے واقعات سامنے آئے۔ #Timesup نامی مہم ميں بھی دنيا بھر کی عورتوں نے ايسے ہی منفی تجربات بيان کيے۔