امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک اسکول میں داخل ہو کر فائرنگ کرنے اور وہاں متعدد طالب علموں سمیت سترہ افراد کو ہلاک کرنے والا مشتبہ حملہ آور نکولس کروز مبینہ طور پر ’سفید فام باشندوں کی نسلی برتری کی سوچ‘ کا حامل ہے۔
اشتہار
نکولس کروز کو ساتھی طلبہ کو دھمکانے، سوشل میڈیا کے ذریعے ’پریشان کن‘ پیغامات بھیجنے اور اپنی پسندیدہ بندوقوں اور رائفلوں کی تصاویر پوسٹ کرنے جیسی سرگرمیوں کی وجہ سے اسکول سے خارج کر دیا گیا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ذہنی طور پر مسائل اور اکیلے پن کے شکار اس نوجوان کی بابت کئی دیگر باتیں اپنی جگہ مگر سوال یہ ہے کہ یہ نوجوان بدھ کو کس طرح پارک لینڈ کے ہائی اسکول میں ایک بندوق کے ساتھ داخل ہونے میں کامیاب ہوا، جہاں اس نے فائرنگ شروع کر دی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کا کہنا ہے گوکہ دیکھنے میں یہ 19 سالہ مشتبہ حملہ آور اپنی عمر کے دیگر لڑکوں سے ذرا مختلف نہیں، مگر اس حملے کے بعد سامنے آنے والی خبروں میں کہا جا رہا ہے کہ اس نوجوان کی بابت کئی امور ایسے تھے، جن پر سکیورٹی اداروں کو توجہ دینے کی ضرورت تھی۔
اسرائیلی فوجیوں پر حملہ کرنے والی لڑکی سوشل میڈیا اسٹار
01:56
ملزم کے کئی ساتھی طالب علموں کے مطابق کروز نے نہ صرف بہت سے متشددانہ آن لائن پیغامات پوسٹ کیے تھے بلکہ گزشتہ برس ملزم ہی کے نام والے ایک صارف نے یوٹیوب پر ایک ویڈیو پر تبصرے میں لکھا تھا، ’’میں ایک پروفیشنل اسکول شوٹر بننے جا رہا ہوں۔‘‘
چند حلقوں کا خیال ہے کہ یہ تبصرہ کروز نے ہی لکھا تھا جب کہ دیگر حلقے اس بات سے اختلاف رکھتے ہیں۔ اہم پہلو یہ ہے کہ یہی بات امریکی ادارے ایف بی آئی کے علم میں بھی آئی تھی لیکن تب نکولس کروز کا کوئی سراغ نہ لگایا جا سکا تھا۔
کروز نے ریپبلک آف فلوریڈا نامی اس گروہ میں بھی شمولیت اختیار کی تھی، جو سفید فام باشندوں کی نسلی برتری کے موقف کا حامل ہے۔ اس گروپ کے ایک رکن نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ اس نوجوان نے اس گروپ کے زیر نگرانی عسکری تربیت بھی حاصل کی تھی۔ مقامی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ کروز کا دماغی امراض کے ایک کلینک میں علاج بھی ہوتا رہا ہے، تاہم گزشتہ ایک برس سے اس نے اس کلینک کا رخ نہیں کیا تھا۔
جنگلاتی بوسے
محبت کے اظہار کے لیے بوسہ دینا صرف انسانی فعل سمجھا جاتا ہے لیکن یہ عمل صرف انسانوں تک محدود نہیں۔ اکثر جانور اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں بوسے کا سہارا لیتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ صرف محبت کا ہی اظہار ہو۔
زیادہ تر بلیاں تنہا رہنا پسند کرتی ہیں لیکن شیر اور چیتوں کی خصلت اس معاملے میں بلیوں سے کچھ مختلف ہے۔ شیر اور چیتے ایک دوسرے سے ملنے پر محبت کے اظہار کے لیے اپنے چہرے آپس میں رگڑنے کے علاوہ چاٹتے بھی ہیں ہیں۔
تصویر میں بظاہر ایک دوسرے کو بوسہ دیتے ہوئے یہ ہاتھی در اصل پانی کے ایک چھوٹے سے ذخیرے سے سیراب ہونے کے لیے ایک دوسرے کو پیچھے دھکیل رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/P. Espeel
دوستی کی گرمجوشی
اس تصویر میں یہ چھوٹے سے جانور ایک دوسرے کو گرم جوشی سے بوسہ دیتے نظر آرہے ہیں۔ لیکن یہ محبت سے زیادہ دوستی کی گرمجوشی ہے۔ مارموٹ نامی یہ جانور ایک دوسرے کا استقبال اپنے سروں کو ایک دوسرے سے ملا کر اپنی ناک آپس میں رگڑتے ہوئے کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Mary Evans/S. Meyers
دوست نہیں دشمن
ایک دوسرے کے لبوں کو بوسہ دیتی یہ مچھلیاں محبت کا نہیں بلکہ دشمنی کا اظہار کر رہی ہیں۔ چین کے باشندوں ان مچھلیوں کا یہ پہلو ویلنٹائن ڈے کے طور پر لیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Imaginechina
شرمیلے خرگوشوں کا انداز محبت
خرگوش محبت کے اظہار کے لیے بوسے کا سہارا نہیں لیتے بلکہ ایک دوسرے کی بو کو قریب سے سونگھتے ہیں۔ عموماﹰ جوڑے کے طور پر رہنے والے خرگوش بظاہر شرمیلے ہوتے ہیں۔
ہر جانور کی اپنی ایک جداگانہ بُو ہوتی ہے جو اس کی پہچان کا باعث بھی بنتی ہے۔ اکثر ایک دوسرے سے سر جوڑے نطر آنے والے جانور دوسرے جانور کی بُو سےاپنے یا غیر قبیلے کی پہچان کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPhoto
چونچ سے چونچ لڑانا
اپنی چونچ کے باعث پرندوں کے لیے ایک دوسرے کو بوسہ دینا مشکل ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ محبت کے اظہار کے لیے ایک دوسرے کی چونچ سے چونچ ملاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Lanting
مرتے دم تک کا ساتھ
طوطوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنا پارٹنر چننے میں وقت لیتے ہیں اور نہایت باریک بینی سے انتخاب کرتے ہیں لیکن ایک بار انتخاب کر لیں تو مرتے دم تک اس کا ساتھ نبھاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Anka Agency/G. Lacz
8 تصاویر1 | 8
کروز بدھ کی سہ پہر میامی شہر کے شمالی نواحی علاقے میں قائم ماجوری سٹون میں ڈگلس ہائی اسکول میں داخل ہوا تھا، اور اس نے اے آر 15 سیمی آٹومیٹک رائفل سے فائرنگ شروع کر دی تھی۔ اس اسکول کے طلبہ اور اساتذہ کا کہنا ہے کہ کروز کے اسکول سے خارج کیے جانے سے قبل 300 طلبہ کے نمائندہ ایک گروپ نے اس کے رویے کو ’عجیب‘ اور ’دھمکی آمیر‘ بھی قرار دیا تھا۔