فلپائن: صحافی کے قتل پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع
5 اکتوبر 2022
سابق صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے کی اکثر نکتہ چینی کرنے والے ایک ریڈیو صحافی کو حملہ آوروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ صحافیوں کی تنظیم نیشنل یونین آف جرنلسٹس کا کہنا ہے کہ حکام صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
اشتہار
فلپائن پولیس نے منگل کے روز بتایا کہ پرسی لیپیڈ کے نام سے معروف ریڈیو صحافی پرسیول ماباسا کو دارالحکومت منیلا کے نواح میں موٹر سائیکل پر سوار دو حملہ آوروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
اس واقعے کی میڈیا گروپوں، سماجی کارکنوں، حزب مخالف کے سیاست دانوں اور غیر ملکی سفارت خانوں کی طرف سے مذمت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ماباسا کے "دیدہ دلیری" سے قتل کے اس واقعے کو صحافت کی آزادی کے لیے دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ منگل کی شام کو منیلا میں مظاہرین نے اس کے خلاف احتجاجی مارچ کیا۔
اشتہار
پرسی لیپیڈ کو کیسے قتل کیا گیا؟
63 سالہ ماباسا کو منیلا کے نواحی علاقے لاس پناس میں ان کے گھر کے قریب ایک رہائشی کمپاونڈ کے گیٹ پر موٹر سائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ وہ ڈی ڈبلیو بی ایل ریڈیو اسٹیشن میں اپنی ڈیوٹی پر کار سے جانے کی تیاری کر رہے تھے۔
قومی پولیس نے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا وعدہ کیا ہے اور کہا کہ اس کیس کی انکوائری کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس قائم کی جائے گی۔
پولیس سربراہ جمی سانٹوس نے ایک بیان میں کہا،"ہم اس امکان کو مسترد نہیں کر رہے ہیں کہ فائرنگ کا تعلق میڈیا میں ماباسا کے کام سے ہو سکتا ہے۔"
ماباسا کے یو ٹیوب چینل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سابق صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے اور موجودہ صدر فرڈینینڈ مارکوس جونیئر کی انتظامیہ کی بعض پالیسیوں اور عہدیداروں کی تنقید کرتے تھے۔
ملکی اور بین الاقوامی مذمت
فلپائن کی نیشنل یونین آف جرنلسٹس نے ایک بیان میں کہا کہ ''یہ واقعہ میٹرو منیلا میں پیش آیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجرم کتنے دیدہ دلیر تھے، اور حکام صحافیوں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو بھی نقصان سے بچانے میں کس طرح ناکام رہے ہیں۔''
یونین نے کہا کہ ماباسا "ریڈ ٹیگنگ" کے سخت ناقد تھے۔ یہ عامیانہ اصطلاح حکومت سے اختلاف کرنے والوں کو کمیونسٹ کے ہمدرد قرار دے کر مسترد کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ وہ آن لائن قمار بازی کے کاروبار اور مارشل لا کے متعلق غلط معلومات کے بھی خلاف تھے۔
ماباسا کے اہل خانہ نے اس قتل کو "قابل مذمت جرم" قرار دیا اور "اس کے بزدل قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے" کا مطالبہ کیا۔
ہالینڈ، کینیڈا اور برطانیہ کے سفارت خانوں نے اس قتل کی مذمت کی ہے اور فوری اور مکمل تحقیقات پر زور دیا ہے۔
کینیڈا کے سفارتخانے نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں ''فلپائنی حکام پر زور دیا گیا کہ وہ نہ صرف مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں، بلکہ صحافیوں کے لیے ایک محفوظ ماحول پیدا کریں تاکہ وہ اپنی جانوں اور حفاظت کے لیے بغیر کسی خوف کے اپنا کام کر سکیں۔''
’صحافت کی آزادی‘ کے شکار صحافی
صحافیوں کو ان کی ذمہ داریوں کے دوران گرفتارکیا جاتا ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی مرتبہ قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ یہ صحافی اکثر حکومتوں، جرائم پیشہ گروہوں یا مذہبی انتہاپسندوں کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hamed
روس: نکولائی آندرشتشینکو
نکولائی آندرشتشینکو کو روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں سرعام ایک سڑک پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انیس اپریل 2017ء کو وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ آندرشتشینکو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جرائم کے خلاف لکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ صدر ولادیمیر پوٹن جرائم پیشہ گروہوں اور کے جی بی کے جانشین روسی خفیہ ادارے کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اقتدار میں آئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Usov
میکسیکو: میروسلاوا بریچ
میروسلاوا بریچ کو تئیس مارچ 2017ء کو ان کے گھر کے سامنے سر میں آٹھ گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ میکسیکو کی یہ صحافی منشیات فروش گروہوں کے راز فاش کیا کرتی تھی۔ وہ مارچ میں میکسیکو میں قتل ہونے والی تیسری صحافی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. Tischler
عراق: شیفا گہ ردی
شیفا گہ ردی پچیس فرروی 2017ء کو شمالی عراق میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں ہلاک ہوئیں۔ ایران میں پیدا ہونے والی شیفا اربیل میں قائم کرد خبر رساں ادارے ’روودوا‘ کے لیے کام کرتی تھیں۔ انہیں عراق میں ملکی دستوں اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مابین جاری جنگ کے بارے میں رپورٹنگ کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
تصویر: picture alliance/dpa/AA/F. Ferec
بنگلہ دیش: اویجیت رائے
امریکی شہریت کے حامل اویجیت رائے اپنے بلاگ ’مکتو مونا‘ یعنی’کھلا ذہن‘ کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتے تھے۔ وہ خاص طور پر سائنسی حقائق اور مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں لکھتے تھے۔ وہ فروری 2015ء میں ایک کتاب میلے میں شرکت کے لیے ڈھاکہ آئے تھے۔ مذہبی انتہا پسندوں نے تیز دھار چاپٹروں سے ان پر حملہ کرتے ہوئے انہیں قتل کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. U. Zaman
پاکستان: زینت شہزادی
24 سالہ پاکستانی صحافی زینت شہزادی کو انیس اگست 2015ء کو مسلح افراد نے اس وقت اغوا کر لیا تھا جب وہ ایک رکشے میں سوار ہو کر اپنے دفتر جا رہی تھیں۔ وہ لاپتہ ہونے والے ایک شخص کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ زینت پاکستانی افواج کی طرف سے تعاقب کا شکار بنیں۔
تصویر: humanrights.asia
ازبکستان: سالیجون عبدالرحمانوف
عبدالرحمانوف 2008 ء سے منشیات رکھنے کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق حکومتی اہلکاروں نے عبدالرحمانوف کو خاموش کرانے کے لیے ان پر یہ جھوٹا الزام عائد کیا۔
ترکی : ڈینیز یوچیل
ترک نژاد جرمن صحافی ڈینز یوچیل فروری 2017ء سے ترکی میں زیر حراست ہیں۔ جرمن جریدے دی ویلٹ کے اس صحافی پر دہشت گردی کا پرچار کرنے اور عوام میں نفرت پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ انقرہ حکومت ابھی تک ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.Merey
چین: گاؤ یُو
گاؤ یُو ماضی میں ڈوئچے ویلے کے لیے کام کر چکی ہیں۔ وہ 2014ء سے سرکاری راز افشا کرنے کے جرم میں قید میں ہیں۔ انہیں سات سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ بین الاقوامی دباؤ کے بعد گاؤ کو جیل سے رہا کر کے ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔
تصویر: DW
آذربائیجان: مہمان حسینوف
حسینوف ایک آن لائن سماجی اور سیاسی میگزین کے مدیر ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانیوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ اپنے ملک کے اس سب سے معروف ویڈیو بلاگر کو بہتان تراشی کے الزام میں مارچ 2017ء میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی
تصویر: twitter.com/mehman_huseynov
مقدونیا: ٹیموسلاف کیزاروفسکی
ٹیموسلاف کیزاروفسکی کو جنوب مشرقی یورپ کا واحد سیاسی قیدی کہا جاتا ہے۔ کیزاروفسکی ایک صحافی کے قتل کے واقعے میں اصل حقائق تک پہنچنے کی کوششوں میں تھے اور اس دوران انہوں نے پولیس کی خفیہ دستاویزات کا بھی حوالہ دیا تھا۔ اکتوبر 2013ء کی ایک متنازعہ عدالتی کارروائی کے اختتام پر انہیں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی گئی، جسے بعد میں دو سالہ نظر بندی میں تبدیل کر دیا گیا۔
تصویر: DW/K. Blazevska
10 تصاویر1 | 10
فلپائن میں آزادی صحافت کی کیا صورتحال ہے؟
گزشتہ ماہ ہی وسطی فلپائن میں ایک اور ریڈیو صحافی رے بلانکو کو چاقو مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
فلپائن کا صحافتی ماحول ایشیا میں زیادہ آزاد خیال ہے، پھر بھی یہ، بالخصوص دیہی علاقوں میں، کام کرنے کے لحاظ سے ایک خطرناک جگہ ہے۔
رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے مطابق 1987 سے اب تک ملک میں کم از کم 187 صحافی مارے جا چکے ہیں، جن میں 2009 میں ایک ہی واقعے میں 32 صحافی ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب ایک انتخابی جلسے کے دوران ایک اپوزیشن لیڈر، ان کے حامیوں پر حملہ کیا گیا اور اس کی کوریج کرنے والے صحافی اس حملے میں مارے گئے۔
نیویارک سے سرگرم صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی نے 2021 میں فلپائن کو اپنے عالمی استثنیٰ کے انڈیکس میں 13 ویں نمبر پر رکھا اور 13 صحافیوں کے قتل کی طرف اشارہ کیا جن کے کیس ابھی تک حل نہیں ہوسکے ہیں۔
فلپائنی نژاد نوبل امن انعام یافتہ صحافی ماریا ریسا اور ان کے ادارے ریپلر کے خلاف بارہا اور طویل عرصے تک چلنے والے مقدمات کی وجہ سے پریس کی آزادی، غلط معلومات اور ممکنہ حکومتی ظلم و ستم جیسے مسائل منظر عام پر آتے رہے ہیں۔