1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فنڈ کی کمی کے سبب بھارتی بحریہ کا توسیعی منصوبہ متاثر

جاوید اختر، نئی دہلی
30 دسمبر 2020

بھارتی بحریہ کو فنڈ کی کمی کے سبب اپنے توسیعی منصوبوں میں تخفیف کرنا اور ضرورتوں کو’معقول‘ بنانا پڑ رہاہے۔ جبکہ پڑوسی اور حریف چین ایک بڑی عالمی طاقت بننے کے لیے اپنی بحریہ پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہا ہے۔

Indien Flugzeugträger INS Vikramaditya
تصویر: Imago/Hindustan Times/A. Poyrekar

ایک طرف فنڈ کی کمی اور دوسری طرف مختلف ضروریات کو پورا کرنے کی مجبوری کے سبب بھارتی بحریہ مختلف متبادل اپنانے پر غور کررہی ہے، جن میں ضرورتوں کو 'معقول‘ بنانا اورچیلنجز سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون حاصل کرنا شامل ہے۔

بھارتی میڈیا میں نام ظاہر کیے بغیر بھارتی فوج کے ایک اعلیٰ افسر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ چونکہ کورونا وائرس کی وبا کے سبب بھارتی معیشت کے تمام شعبے متاثر ہوئے ہیں اس لیے لاگت اور اخراجات میں کمی کرنا ناگزیر ہے۔ اس کے مدنظر ’’بھارتی بحریہ نے اپنی ضرورتوں کو معقول بنانا اور منصوبوں میں تخفیف کرنا شروع کردیا ہے۔‘‘  ان کا تاہم کہنا تھا کہ ''بھارت کو کوئی بھی آنکھ دکھانے کی جرأت نہیں کرسکتا ہے۔‘‘

ضروریات کو 'معقول‘ بنانے کی کوشش

حالانکہ بھارتی بحریہ کا بجٹ سن 2019-20کے 23156کروڑ روپے کے مقابلے میں سن 2020-21 میں بڑھا کر 26688کروڑ روپے کردیا گیا ہے لیکن کورونا وائرس کی وبا کے سبب بہت سی ترجیحات تبدیل کرنی پڑی ہیں اور چونکہ ابھی یہ یقین سے کہنا مشکل ہے کہ اس وبا کا دور کب تک جاری رہے گا اس لیے بجٹ کو دیکھتے ہوئے ضرورتوں کو 'معقول‘ بنانا پڑ رہا ہے۔

بھارتی بحریہ کے افسر کا کہنا تھا کہ کئی اہم دفاعی سودوں اور خریداری کی تعداد کم کردی گئی ہے۔ بھارتی بحریہ نے امریکا سے خریدے جانے والے P8i جاسوس طیاروں کی تعداد دس سے کم کرکے چھ کردی ہے۔ سمندر میں بارودی سرنگوں کا پتہ لگانے والے جہازوں کی تعداد میں نصف کمی کرکے 24 سے 12 کردی گئی ہے۔جب کہ اس میں مزید کمی کرکے اسے آٹھ کرنے پر غور کیاجا رہا ہے۔اسی طرح جنگی جہازوں میں اہمیت کے حامل لینڈنگ پلیٹ فارم ڈاکس کی ضرورت کو'معقول‘ بناتے ہوئے چار سے کم کرکے دو کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق نومبر میں ایک امریکی کمپنی سے سی گارجین پریڈیٹر ڈرونز منگوائے گئے تھے۔انتہائی بلند ی پر پرواز کرتے ہوئے جاسوسی کرنے والے کم از کم 30 ڈرونز کی بھارتی فوج کے تینوں شعبوں کو ضرورت ہے لیکن بھارتی بحریہ نے فی الحال دو ڈرونز حاصل کرنے پر اکتفا کیا ہے۔

فنڈ کی کمی کی وجہ سے متاثر ہونے والا ایک اور پروجیکٹ ڈیک سے پرواز کرنے والے جنگی جہازوں کی تعداد میں کمی ہے۔ بھارتی بحریہ نے سن 2017میں 57جنگی جہازوں کے لیے بین الاقوامی ٹینڈر جاری کیے تھے تاہم بھارتی دفاع سے جڑے اس افسر کا کہنا تھا کہ تعداد پر نظر ثانی کرکے 34 کی جاسکتی ہے۔

چین کی بڑھتی ہوئی طاقت

بھارتی بحریہ کے توسیعی منصوبوں میں تخفیف کی کوششیں ایسے وقت ہورہی ہیں جب بھارت کا حریف اور جوہری طاقت رکھنے والا ملک چین اپنی دفاعی صلاحیتوں میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ چین نہ صرف اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کر رہا ہے بلکہ دفاعی پیداوار کے شعبے میں بھی بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

چین اور بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی فوجی کشیدگی

03:33

This browser does not support the video element.

امریکی بحرالکاہل بیڑے کے انٹیلی جنس اور انفارمیشن آپریشز کے سابق ڈائریکٹر کیپٹن جیمس فنیل نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی سن 2030سے پہلے ہی امریکی بحریہ اور بھارتی جنگی جہازوں کی مجموعی تعداد کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ چینی بحریہ کے پاس سن 2030تک کم از کم 450جنگی جہاز اور 110آبدو ز ہوں گے۔ جو کہ سن 2015کے مقابلے دس گنا زیادہ ہیں۔

کیپٹن جیمس فنیل کے مطابق ان جنگی جہازوں پر نصب میزائیلوں کا رخ نہ صرف امریکا بلکہ بھارت کی طرف بھی ہوگا۔

چین،اسلحہ برآمد کرنے میں بھی آگے

اسٹاک ہوم کے انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا کی 25سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں چار چینی کمپنیاں شامل ہیں جب کہ چوٹی کی دس کمپنیوں میں تین کمپنیاں چین کی ہیں۔چین، امریکا، روس، فرانس اور جرمنی کے بعد ہتھیار برآمد کرنے والا دنیا کا پانچواں سب سے بڑاملک ہے۔ اس کے برخلاف بھارت فوج پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والا دنیا کا تیسرا ملک ہونے کے باوجود ہتھیار درآمد کرنے والے ملکوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔

دفاعی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت میں دفاعی بجٹ کا بہت بڑا حصہ سابقہ فوجیوں کے پنشن پر خرچ ہوجاتا ہے۔2020-21کے 63بلین ڈالر کے بجٹ میں سے تقریباً 18بلین ڈالر پنشن کی ادائیگی پر خرچ کیے جائیں گے۔ بھارتی بحریہ کے اپنے توسیعی منصوبوں میں تخفیف کرنے اور ضرورتوں کو 'معقول‘ بنانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔

جاوید اختر،نئی دہلی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں