1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فن سین فائلز: ’بڑے بینکوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے‘

22 ستمبر 2020

خفیہ دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومتیں منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے بینکوں کو لگام ڈالنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ جرمنی میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے۔

FinCEN Files / Banken Kombolbild

مافیا گروہ، استبداد پسند، کرپٹ شخصیات اور جعل ساز ناجائز طریقوں سے کمائی گئی رقوم روزانہ کی بنیادوں پر دنیا کے معاشی نظام میں شامل کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق روزانہ ناجائز طریقوں سے کمائے ہوئے تقریبا 5.5 ارب یورو قانونی نظام میں شامل کیے جاتے ہیں اور ایسا ان بین الاقوامی بینکوں کی مدد سے کیا جاتا ہے، جو رقوم ایک ملک سے دوسرے ملک ٹرانسفر کرتے ہیں، حالانکہ یہ بینک قانوناﹰ پابند ہوتے ہیں کہ کسی بھی مشکوک ٹرانزیکشن کے بارے میں تیس دن کے اندر اندر حکام کو مطلع کریں۔

گلوبل منی لانڈرنگ کا انکشاف

امریکی وزارت خزانہ کی خفیہ دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر فعال بہت سے بڑے بڑے بینک اپنی ناقص کارکردگی اور لاپروائی کے باعث عالمی سطح پر ایک ٹریلین ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں شریک رہے ہیں۔

یہ پریشان کن انکشاف صحافیوں کے ایک انٹرنیشنل نیٹ ورک کی طرف سی کی گئی طویل چھان بین کے بعد ممکن ہوا۔ اس انکشاف کی بنیاد وہ خفیہ رپورٹیں بنیں، جو دنیا کے مختلف بینکوں نے مالیاتی جرائم کی روک تھام کے نیٹ ورک یا 'فِن سَین‘ (FinCEN) کو جمع کرائیں۔

بینکوں کو جواب دینا ہو گا

جرمنی کی مخلوط حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے شریک چیئرمین نوربرٹ والٹر بورجانز نے قصور وار عناصر اور افراد کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک جرمن اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''ہمیں کارپوریٹ فوجداری قانون کی ضرورت ہے، جو نہ صرف انفرادی سطح پر ملازمین کے احتساب کا مطالبہ کرے بلکہ قانونی خلاف ورزیوں کی صورت میں مجموعی طور پر مجرم بینکوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لائے۔‘‘

صرف بینک ہی قصور وار نہیں

ماہرین کے مطابق اس اسکینڈل کے لیے صرف بینک ہی قصور وار نہیں بلکہ وہ اعلیٰ حکام بھی ہیں، جو اس کھیل کا حصہ ہیں۔ عالمی ادائیگیوں کے لین دین میں امریکی ڈالر کا مرکزی کردار ہے۔ اگر امریکی کرنسی اس میں شامل ہو، تو پھر منی لانڈرنگ کے مشتبہ واقعات فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک (فن سین) کو رپورٹ کرنا ضروری ہوتے ہیں۔

ٹیکس جسٹس نیٹ ورک سے منسلک مارکوس مائنزر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ فن سین امریکا کی ایک انتہائی اہم ایجنسی ہے کیوں کہ یہ نہ صرف امریکی مارکیٹ بلکہ پوری دنیا میں ڈالر میں کی گئی ادائیگیوں کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر تعاون کا فقدان ہے۔ اس ایجنسی کے ملازمین کی تعداد صرف تین سو ہے اور ایسا ممکن ہی نہیں کہ یہ ملازمین تمام مشتبہ مالیاتی معاملات کی چھان بین کر سکیں۔ مشتبہ کیسوں پر یا تو پیش رفت ہی نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے، تو وہ بہت ہی سست رفتار ہوتی ہے۔

کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں

سرکاری وکلاء، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مناسب طور پر تیار ہی نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے پاس اتنے وسائل ہیں۔ مارکوس مائنزر کہتے ہیں، ''یہاں پر میں تو واضح طور پر سیاسی عزم کی بھی کمی محسوس کرتا ہوں۔ سیاسی قائدین بھی اس مسئلے کو سنجیدگی اور تسلسل کے ساتھ حل کرنے پر تیار نظر نہیں آتے۔‘‘

جرمنی کی گرین پارٹی کی رکن پارلیمان لیزا پاؤز بھی ایسے ہی الزامات عائد کرتی ہیں۔ وہ جرمن پارلیمان کی فنانس کمیٹی کی بھی رکن ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے جرمن فنانشل سپروائزری کو کئی سال پہلے ہی کہا تھا کہ معاشی اور مالیاتی جرائم کرنے والوں کی تفتیش کی جائے لیکن ان کی تجویز مسترد کر دی گئی تھی۔

اب نہ صرف جرمنی پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے بلکہ یورپی سطح پر بھی بینکوں کو کنٹرول کرنے کے مطالبات میں تیزی آ رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں