فن لينڈ کا نيٹو ميں شوليت کا فيصلہ، روس کا سخت رد عمل
12 مئی 2022
فن لينڈ نے نيٹو ميں شموليت کا فيصلہ کر لیا ہے جبکہ سويڈن بھی عنقريب اس بارے ميں فيصلہ کرنے والا ہے۔ روس نے ان رياستوں کی مغربی دفاعی اتحاد ميں شموليت کو جارحيت قرار ديا ہے اور جوابی اقدامات کی دھمکی دی ہے۔
اشتہار
فن لینڈ کے صدر اور وزیر اعظم نے کہہ دیا ہے کہ وہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں جلد از جلد شمولیت کے حق میں ہیں۔ یوکرین میں روسی جارحیت کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ فن لینڈ کو نیٹو کا رکن ملک بننے کی خاطر فوری طور پر درخواست جمع کرا دینا چاہیے۔ يہ بات ايک مشترکہ بيان ميں کہی گئی، جو جمعرات کو جاری کيا گيا۔
فن لینڈ اور روس کے درمیان 1,340 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد ہے۔ روس نے خبردار کر رکھا ہے کہ سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ماسکو حکومت کے مطابق نیٹو میں توسیع سے یورپ یا یہ دنیا مستحکم نہیں ہو سکتی ہے۔
فن لينڈ کی جانب سے يہ فيصلہ ايک وقت پر سامنے آيا ہے، جب برطانوی وزير اعظم بورس جانسن نے ايک روز قبل ہی فن لينڈ اور سويڈن کا دورہ کيا تھا، جس دوران انہوں نے ان دونوں ملکوں کے ساتھ دفاعی تعلقات بڑھانے کے ايک معاہدے کو حتمی شکل بھی دی۔ برطانیہ نے يہ يقين دہانی بھی کرائی ہے کہ اگر شمالی یورپی رياستوں سویڈن اور فن لینڈ پر حملہ کيا گيا، تو برطانيہ ان کی مدد کرے گا۔
24 فروری کو روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے فن لینڈ اور سویڈن سوچ رہے ہیں کہ اپنے تاریخی، عشروں پرانے غیر جانبدار يا 'نيوٹرل‘ رہنے کے لائحہ عمل کو ترک کر کے 30 رکنی نیٹو میں شمولیت اختيار کر لی جائے۔ اگر فن لینڈ نیٹو کا رکن بن جاتا ہے تو يہ اس نورڈک ملک کی دفاعی اور سیکورٹی پالیسی میں بڑی تبدیلی ہو گی۔ دوسری عالمی جنگ ميں اس ملک نے سابق سوویت یونین کے خلاف دو جنگیں لڑیں، جن ميں اسے شکست کا منہ ديکھنا پڑا۔ پھر سرد جنگ کے دوران فن لینڈ نیٹو سے دور رہا کيونکہ وہ سوويت يونين کو نالاں نہيں کرنا چاہتا تھا۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژينس اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ وہ عسکری اتحاد ميں فن لینڈ اور سویڈن کا خیر مقدم کريں گے۔
نیٹو فورسز کی ناروے میں عسکری مشقیں
02:26
روس کا رد عمل
دوسری جانب روس نے خبردار کیا ہے کہ اسے پڑوسی ملک فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کے جواب میں عسکری سطح کے تکنیکی اقدامات کرنے ہوں گے۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ نیٹو کی توسیع اور روسی سرحدوں تک رسائی، دنیا اور يورپ کو زیادہ مستحکم اور محفوظ نہیں بناتی۔ روس کی وزارت خارجہ نے کہا کہ ماسکو کو 'اپنی قومی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے فوجی، تکنیکی اور دیگر اقدامات کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔‘ اس نے نیٹو پر الزام لگایا کہ وہ روس کے لیے ایک اور فوجی خطرہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جرمنی میں امریکی فوج کی تاریخ
امریکی فوج تقریباﹰ 75 سالوں سے جرمنی میں موجود ہے۔ یہ فوج دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں فاتح کے طور پر داخل ہوئی اور کچھ عرصے میں ہی جرمنی کی اتحادی بن گئی۔ لیکن یہ باہمی تعلق ہمیشہ ہموار نہیں رہا ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. May
رمشٹائن ملٹری ائیربیس کا اہم دورہ
جرمنی میں تقریباﹰ 35 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں جن کی اکثریت ملک کے مغرب اور جنوب میں ہے۔ لیکن اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس 75 سالہ پرانے تعلق میں تبدیلیاں لانے کے خواہشمند ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جرمنی سے بارہ ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ فوج کی واپسی کا یہ عمل امریکا اور جرمنی کے مابین فوجی اتحاد کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
سوویت یونین کا کردار
جرمنی میں امریکی فوج دوسری جنگ عظیم کے بعد آنا شروع ہوئی تھی۔ امریکا نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے جرمنی کو نازیوں سے آزاد کروایا تھا۔ تاہم اس وقت اس کا اتحادی ملک سوویت یونین جلد ہی دشمن بن گیا تھا۔ اس تصویر میں تقسیم شدہ برلن میں امریکی فوج اورسابقہ سوویت یونین کے ٹینک ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایلوس پریسلے
امریکی فوجیوں نے جرمنی کو امریکی ثقافت سے بھی روشناس کروایا۔ کنگ آف ’روک ن رول‘ ایلوس پریسلے نے ایک امریکی فوجی کے طور پر سن 1958 میں جرمنی میں اپنی فوجی خدمات کا آغاز کیا تھا۔ اس تصویر میں پریسلے یہ اپنے مداحوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Heidtmann
جرمنی اب اپنا گھر
پچھلے کچھ برسوں سے امریکی فوج جرمن سر زمین پر مستقل قیام کیے ہوئے ہے۔ امریکی اڈوں کے گردونواح میں امریکی فوج اور ان کے خاندانوں کے لیے کئی رہائشی مقامات تعمیر کیے گئے ہیں۔ الگ تھلگ رہائش کا یہ نظام امریکی فوجیوں کا جرمنی میں مکمل انضمام میں دشواری کا سبب بھی بنتا ہے۔ سن 2019 میں امریکی فوج نے 17،000 امریکی سویلین شہریوں کو جرمنی میں ملازمت پر رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
امریکا اور جرمن خاندانوں کا تعلق
الگ رہائشی علاقوں کے باوجود، جرمن اور امریکی خاندانوں میں رابطہ رہا ہے۔ فوج کی تعیناتی کے ابتدائی برسوں میں برلن میں موسم گرما اور سرما میں پارٹیوں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ امریکی فوج مقامی بچوں کے لیے کرسمس پارٹی کا اہتمام بھی کرتی تھی اور ہر سال جرمنی اور امریکا دوستی کے ہفتہ وار جشن منائے جاتے تھے۔
سرد جنگ کے دوران وفاقی جمہوریہ جرمنی ایک اہم اسٹریٹیجک مقام بن گیا تھا۔ سن 1969 میں نیٹو ’مینوور ریفورجر ون‘ امریکی اور جرمن فوج کے زیر اہتمام بہت سی مشترکہ جنگی مشقون میں سے ایک تھی۔ اس میں دشمن سوویت یونین اور مشرقی جرمنی سمیت وارسا معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک تھے۔
تصویر: picture-alliance/K. Schnörrer
جوہری میزائل پر تنازعہ
سن 1983 میں متلانگن میں امریکی اڈے پر پریشنگ 2 راکٹ لائے گئے تھے۔ جوہری وار ہیڈس سے لیس شدہ یہ راکٹس ایک سیاسی مسئلہ بن گئے تھے۔ امن کے خواہاں سرگرم کارکنان ان میزائلوں کے خلاف تھے۔ ان کے احتجاجی مظاہروں میں مشہور شخصیات بھی شریک ہوتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راستے جدا
تقریباﹰ20 سال بعد یعنی 2003ء میں امریکی صدر جارج بش نےعراق کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ جنگ کی وجہ عراق کا وہ مبینہ پروگرام تھا، جس کے تحت وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہے تھے۔ اس دور کے جرمن چانسلر گیرہارڈ شروڈر نے جرمنی کو اس جنگ سے دور رکھا۔ اور برلن اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpa_pool/A. Altwein
جرمنی پھر بھی اہم
اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی سے اپنے بارہزار فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے پر قائم رہتے بھی ہیں تو بھی جرمنی امریکا کے لیے ایک اہم اسٹریٹیجک ملک رہے گا۔ رمشٹائن کا اڈہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ یورپ میں امریکی فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ یہاں سے ہی متنازعہ ڈرون مشنز افریقہ اور ایشیا میں پرواز کرتے ہیں۔