فن لینڈ فضائیہ نے اپنے علامتی نشان سے سواستیکا ہٹا دیا
2 جولائی 2020
فن لینڈ کی فضائیہ نے اپنے علامتی نشان (لوگو) میں شامل سواستیکا کو بڑی خاموشی سے ہٹا دیا۔ وہ 1918ء سے اس نشان کا استعمال کررہی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ LEHTIKUVA/V.Moilanen
اشتہار
فن لینڈ نے نئے لوگو کے متعلق کسی اعلان کے بغیر اپنے جنرل اسٹاف کا شناختی نشان اور اپنی فضائیہ کمان کے لوگوکو تبدیل کردیا ہے۔
نئے لوگو میں ایک سنہراعقاب اور پروں کا دائرہ بنا ہوا ہے جبکہ پرانے لوگو میں سواستیکا کا نشان تھا، جسے نازی جرمنی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
ہلسنکی یونیورسٹی میں پروفیسر تیؤ تیئے وینن نے پہلی مرتبہ اس تبدیلی کو نوٹ کیا اور بتایا کہ فن لینڈ کی فضائیہ 1918 سے ہی سواستیکا نشان کا استعمال کررہی ہے۔
فن لینڈ فضائیہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ گوکہ فضائیہ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اپنے طیاروں میں سواستیکا کا استعمال بند کردیا تھا تاہم یہ اس کی یونٹ کے علامتی نشان، یونٹ کے پرچموں اور وردیوں پر استعمال ہورہا تھا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ایئر فورس کمان اور ایرفورس سروس کے لوگو میں مماثلت کے لیے جنوری 2017 میں سواستیکا کو ہٹا کر اس کی جگہ سنہرا عقاب اور پروں کے دائرے کو شامل کیا گیا تھا۔
سواستیکا نازی جرمنی کا علامتی نشان تھا۔ اسے ایک سویڈش معزز شخص کاونٹ ایرک وان روزین نے فن لینڈ کی فضائیہ میں شامل کرایا تھا۔ انہوں نے 1918میں فن لینڈ کی فضائیہ کو ایک طیارہ تحفے میں دیا تھا جس پر نیلے رنگ کے سواستیکا کا نشان بنا ہوا تھا۔ روزین سواستیکا کو خوش قسمتی کی علامت سمجھتے تھے۔
بعد کے دنوں میں فن لینڈ فضائیہ نے اسی علامتی نشان کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ لیکن جب ہٹلر نے نازی پارٹی کے لیے اس نشان کو اپنا یا تو یہ سامیت مخالفت کی علامت سمجھا جانے لگا۔
روزین کا گوکہ 1918 میں نازیوں سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں تھا تاہم اپنے برادر نسبتی کے ذریعہ نازی جرمنی کے ساتھ ان کا تعلق بالآخر اس طرح قائم ہوگیا کہ ان کے برادر نسبتی ہٹلر کے قریبی دوست تھے۔
پروفیسر تیئے وینن کا کہنا ہے کہ فن لینڈ نے 2017 میں سواستیکا کو اس لیے تبدیل کردیا کیوں کہ اس سے ممکنہ طور پر فن لینڈ کی فوج کو نقصان ہوسکتا تھا۔ اس کی وجہ سے فوج کے تئیں نوجوانوں کا رجحان متاثر ہوسکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فن لینڈ کا پڑوسی ملک روس بھی اس علامتی نشان کی وجہ سے یہ کہہ سکتا تھا کہ فن لینڈ اس کا دشمن ہے۔
فن لینڈ کی ایئر فورس اکیڈمی سواستیکا نشان کا استعمال اب بھی کررہی ہے۔
انکیتا مکھوپادھیائے/ ج ا/ ص ز
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔