اسپیشل رپورٹ: جرمنی کا وفاقی جمہوری نظام کیسے کام کرتا ہے؟
30 مارچ 2021
جرمنی امریکا، بھارت اور برازیل کی طرح ایک وفاقی جمہوری ریاست ہے، جس کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ اس نظام کی ایک تاریخی روایت بھی ہے۔ اس کے نقصانات برلن میں وفاقی حکومت کے لیے کئی طرح کے چیلنجز کا باعث بھی بنتے ہیں۔
اشتہار
یورپ کے دل میں وہ خطہ جسے دنیا جرمنی کے نام سے جانتی ہے، بڑی بھرپور اور متنوع تاریخ کا حامل ہے۔ جرمن ریاست میں وفاقی ڈھانچے کسی نا کسی شکل میں صدیوں سے چلے آ رہے ہیں۔ جرمنی کے ہمسایہ ملک فرانس میں پیرس قرون وسطیٰ کے اوائل میں ہی دارالحکومت اور ایک اہم عسکری مرکز بن گیا تھا۔ مگر دریائے رائن سے مشرق کی طرف واقع خطے میں زیادہ تر مقامی نوابوں اور جاگیر داروں کی حکومت تھی، جن کے زیر اثر علاقوں میں زبان تو ایک تھی مگر ایسی جرمن نوابی جاگیریں آپس میں بہت مربوط نہیں تھیں۔
جرمنی میں وفاقی سیاسی نظام کے تاریخی پس منظر کو سمجھنا ان نظام کے سمجھنے کے لیے ضروری ہے، جس کے تحت موجودہ وفاقی جمہوریہ جرمنی کے سولہ وفاقی صوبے، جو دراصل وفاقی ریاستیں کہلاتے ہیں، اس ریاست کی جدید شکل میں اپنا کام کرتے ہیں۔
اپنی اکائیوں کے مجموعے سے زیادہ مضبوط
جو علاقہ آج جرمن ریاست کہلاتا ہے، وہ ماضی میں زیادہ تر شاہی یا مقامی نوابی خاندانوں کے زیر اثر ایسے علاقوں پر مشتمل تھا، جن میں بریمن جیسی چھوٹی چھوٹی شہری ریاستیں بھی شامل تھیں اور پرُوشیا جیسی بڑی بادشاہتیں بھی۔
بعد میں اس ریاست میں کئی ایسی چھوٹی بادشاہتیں اور شہری ریاستیں بھی شامل ہو گئیں، جہاں عوامی حقوق بڑے متنوع تھے اور رائج سکے بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف۔
اسی لیے یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی کہ مختلف شاہی یا نوابی ریاستوں میں خود مختاری کی سطح بھی مختلف تھی۔ صدیوں تک اس خطے میں، جو آج جرمنی کہلاتا ہے، کوئی مرکزی حکمران طاقت نہیں تھی۔
ان خطوں کے حکمران پہلے مقدس رومن شہنشاہ کو مالی ادائیگیاں کرتے تھے اور پھر بعد میں جرمن شہنشاہ کو۔ ان ادائیگیوں کے بدلے رومن یا جرمن شہنشاہ ان خطوں کی بیرونی حملوں سے تحفظ اور غیر ملکی جنگوں میں مدد کرتے تھے۔
سلطنت کی تعمیر نو
بادشاہوں اور شہنشاہوں والے نظام کے خاتمے اور وائیمار جمہوریہ کے پرآشوب برسوں کے بعد جرمنی کی وفاقی روایت کو پہلی بار نازیوں نے توڑا تھا۔ تیس جنوری 1933 کے روز اقتدار پر نازیوں کے قبضے کے بعد مقامی جرمن ریاستوں کو متحد کر کے ایک مرکزی نظام اور کنٹرول کے تحت لانے کا عمل شروع کیا گیا۔
ٹھیک ایک سال بعد تیس جنوری 1934ء کے روز 'سلطنت کی تعمیر نو کا قانون‘ منظور کیا گیا اور تمام جرمن ریاستوں کے حقوق ختم کر دیے گئے۔
مقامی سطح پر مختلف علاقوں کے منتظم وفاقی اداروں کی جگہ 'شاہی گورنر‘ مقرر کر دیے گئے جو جرمن زبان میں Reichsstatthalter کہلاتے تھے۔ یہ 'شاہی گورنر‘ براہ راست برلن میں نازی حکومت کے ماتحت ہوتے تھے اور اس کی جاری کردہ ہدایات پر عمل درآمد کے پابند بھی۔
جمہوریت کی تعمیر نو
دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر جب اتحادیوں کو جرمنی کے خلاف فوجی فتح حاصل ہوئی، تو یہ بحث شروع ہوئی کہ جرمنی میں ریاستی انتظام اور ڈھانچہ کیسا ہونا چاہیے؟ تب جنگ کی فاتح طاقتیں متفق تھیں کہ نازی رہنما اڈولف ہٹلر کی قیادت میں جرمن ریاست میں طاقت اور اختیارات کا ارتکاز ہی نازی آمریت کے عروج کی اہم ترین وجہ تھا۔ اس لیے مستقبل میں طاقت اور اختیارات کے ایسی کسی ارتکاز کو پوری طرح روک دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
پھر جنگ کے بعد جتنی بھی بین الاقوامی کانفرنسیں ہوئیں، ان میں فیصلہ یہ کیا گیا کہ تمام جرمن ریاستوں کے وہ اختیارات بحال کر دیے جائیں، جو نازیوں نے ختم کر دیے تھے۔ اس کے علاوہ جنگ سے پہلے کی جرمن ریاستوں کے علاوہ کئی ایسی نئی جرمن ریاستیں بھی وجود میں آئیں، جو جنگ کی وجہ سے اندرون ملک پیدا ہونے والی علاقائی صورت حال کا نتیجہ تھیں۔
مشرقی جرمن ریاست میں طاقت کا ارتکاز
مشرقی جرمن ریاستیں شروع میں (اب سابق) سوویت یونین کے انتظام میں تھیں۔ یہ ریاستیں بعد میں کمیونسٹ مشرقی جرمن ریاست بن گئیں، جس کا باقاعدہ نام جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک یا جی ڈی آر تھا۔ وہاں وفاقی ریاستیں 1945ء میں 'سوویت فوجی انتظامیہ‘ کی طرف سے منظور کیے گئے ایک قانون کے تحت قائم کی گئی تھیں مگر 1952ء میں جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک کے قیام کے ساتھ ہی انہیں عملاﹰ ختم کر دیا گیا تھا۔
'اشتراکی انتظامی ڈھانچے‘ قائم کرنے کے لیے ان ریاستوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے اختیارات کاؤنٹی اور ضلعی سطح کے انتظامی اداروں کو منتقل کر دیں۔ یوں فیڈرل ازم کو اپنی جگہ جی ڈی آر کے دارالحکومت مشرقی برلن میں ملک سطح پر حکمران سوشلسٹ یونٹی پارٹی کو دینا پڑی۔
سرد جنگ میں اربوں کے کرنسی نوٹوں کا محافظ جرمن تہ خانہ
وفاقی جرمن بینک نے سرد جنگ کے دور میں پندرہ ارب مارک کے متبادل کرنسی نوٹ اپنے ایک ’خفیہ‘ تہ خانے میں رکھے ہوئے تھے، جو آج کل ایک نجی میوزیم ہے۔ اٹھارہ مارچ 2016ء سے اس کے دروازے ہر خاص و عام کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
زمین کے نیچے خفیہ دنیا
جب ساٹھ کے عشرے میں سرد جنگ اپنے نقطہٴ عروج پر پہنچی تو وفاقی جرمن بینک نے ہنگامی کرنسی محفوظ رکھنے کے لیے تہ خانوں کا ایک پورا نظام تعمیر کیا۔ اس منصوبے کو خفیہ اور دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھا جانا مقصود تھا۔ دریائے موزل کے کنارے ایک رہائشی علاقے میں نو ہزار مربع میٹر رقبے پر تین ہزار کیوبک میٹر کنکریٹ کی مدد سے تین سو میٹر لمبی راہداریاں اور پندرہ سو مربع میٹر کا تہ خانہ بنایا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
تہ خانے کا ’انتظام‘
مجوزہ رقبے پر ایک میڈیکل ڈاکٹر کی سابقہ رہائش کو بینک کے ملازمین کے تربیتی مرکز کی شکل دے دی گئی۔ اس ’تربیتی مرکز‘ کے معدودے چند ملازمین میں سے صرف سربراہ کو پتہ ہوتا تھا کہ اس تہ خانے میں رکھا کیا ہے۔ یہ کمرہ بھی اسی تہ خانے میں ہے اور قریب ہی بیوشل کے مقام پر واقع ایٹم بموں کے اڈے پر کسی جوہری حملے کی صورت میں اسے ہنگامی دفتر کا کردار ادا کرنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
تابکاری کا خوف
کسی جوہری حملے کی صورت میں تہ خانے کے اندر موجود عملے کے لیے یہ انتظام موجود تھا کہ وہ خصوصی لباس پہن کر اور گیس ماسک لگا کر خود کو تابکاری شعاعوں کے اثرات سے بچا سکتے تھے۔ ایک کمرے میں پانی کے ذریعے آلودگی ختم کرنے کا انتظام تھا۔ اس کے علاوہ ایک آلہ تھا، جس کی مدد سے تہ خانے میں موجود عملے پر تابکاری کے اثرات کو ماپا جا سکتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
175 افراد کے لیے رہائش
یہ تہ خانہ محض ہنگامی کرنسی اور اُس کے محافظوں کی خفیہ پناہ گاہ ہی نہیں تھا۔ کسی جوہری حملے کی صورت میں اسے 175 انسانوں کو بھی پناہ فراہم کرنا تھی۔ تہ خانے میں صحت و صفائی کی جو سہولتیں بنائی گئی تھیں، اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ سارا انتظام صرف مردوں کے لیے تھا، عورتوں کے لیے نہیں۔ اندر موجود اَشیائے ضرورت کے ذخائر بھی زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں کے لیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
باہر کی دنیا کے ساتھ رابطہ
اس جگہ سے تہ خانے کا عملہ باہر کی دنیا کے ساتھ رابطے اُستوار کر سکتا تھا۔ اس مقصد کے لیے ٹیلی فون کی چار اور ٹیلی پرنٹر کی دو لائنوں کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
اربوں مالیت کی کرنسی تک جانے کا راستہ
ٹنوں وزنی فولادی دروازوں کے پیچھے پڑے کرنسی نوٹوں تک محض بینک کے انسپکٹرز کی رسائی تھی۔ وہی ان دروازوں کو کھولنے کے کوڈ سے واقف تھے۔ جو چند ایک چابیاں تھیں، وہ بھی تہ خانے کے اندر نہیں رکھی گئی تھیں۔ اس کے باوجود ان دروازوں کو اکثر کھولا جاتا تھا، وہاں پڑی رقم گننے کے لیے۔ رُبع صدی کے دوران غالباً ایک بھی کرنسی نوٹ ادھر سے اُدھر نہیں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
پندرہ ارب مارک کی متبادل کرنسی
کسی دشمن قوت کی جانب سے بڑے پیمانے پر ڈوئچ مارک کے جعلی نوٹ گردش میں لانے کی صورت میں ان نوٹوں کو متبادل کرنسی بننا تھا، گو اس کی کبھی نوبت نہ آئی۔ 1988ء میں یعنی سرد جنگ کے خاتمے سے بھی پہلے یہ ڈر جاتا رہا اور یہ کرنسی نوٹ تلف کر دیے گئے۔ تاریخی دستاویز کے طور پر ان میں سے محض چند ایک کرنسی نوٹ اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
اب ایک نجی عجائب گھر
اب اس تہ خانے کو ایک عجائب گھر کی شکل دے دی گئی ہے۔ یہ عجائب گھر ایک جرمن جوڑے نے قائم کیا ہے۔ پیٹرا اور اُن کے شوہر مانفریڈ روئٹر ویسے تو ایک قریبی قصبے میں ایک بس کمپنی چلاتے ہیں۔ 2014ء میں اُنہوں نے یہ تہ خانہ اور اس سے جڑا احاطہ خرید لیا۔ یہ جرمن جوڑا بینکاروں کے سابقہ ’خفیہ تربیتی مرکز‘ کو ایک ہوٹل کی شکل دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
سیاحوں کے لیے باعث کشش
آج کل یہ تہ خانہ تحفظ کے دائرے میں آنے والی قومی یادگاروں میں شمار ہوتا ہے۔ سیاح دور و نزدیک سے کوخم کے مشہور نیو گوتھک قلعے اور ازمنہٴ وُسطیٰ کے قدیم کوخم جیسے دیگر قابل دید مقامات کے ساتھ ساتھ اس تہ خانے کو بھی دیکھنے کے لیے جاتے ہیں۔ گروپوں کے لیے گائیڈڈ ٹورز کا انتظام تو پہلے سے ہی موجود ہے جبکہ اس سال ایسٹر کی تعطیلات سے لوگ انفرادی طور پر بھی گائیڈ کی مدد سے اس تہ خانے کی سیر کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
جی ڈی آر کے پہلے آزادانہ انتخابات
سیاسی طور پر سوویت بلاک کا حصہ بن جانے والی جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک میں وقت کے ساتھ ساتھ سوشلسٹ پارٹی کا اقتدار کمزور ہوا اور 1989ء میں دیوار برلن گرا دی گئی، تو اہم ترین ذمے داری ملک میں پہلی بار حقیقی معنوں میں آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں منتخب کی جانے والی پارلیمان کا عمل میں آنا بنی۔ ایک بہت اہم مقصد پرانی ریاستوں کی بحالی بھی تھا۔
یہ کام بائیس جولائی 1990ء کے روز ہوا اور جی ڈی آر نے اس دور کی مغربی جرمن ریاست کا وفاقی سیاسی نظام اپنا لیا۔ یہ سابقہ مشرقی جرمن ریاست کے وفاقی سیاسی نظام اپنانے کی اسی کلیدی تبدیلی کا نتیجہ تھا کہ اس کے صرف تین ماہ بعد اکتوبر 1990ء میں دونوں جرمن ریاستوں کا باقاعدہ اتحاد عمل میں آ گیا۔
اشتہار
مغرب کے وفاقی نظام کی حقیقت
سابقہ مغربی جرمن ریاست میں، جو وفاقی جمہوریہ جرمنی کہلاتی تھی، اس ریاست کے بانی رہنما چاہتے تھے کہ تمام تر اختیارات مرکزی حکومت کے پاس نا رہیں۔ اس لیے وہ بنیادی قانون، جو دراصل جرمن آئین کی حیثیت رکھتا ہے، جب 1949ء میں بون میں منظور کیا گیا تو پارلیمانی کونسل نے اس بات کو انتہائی زیادہ اہمیت دی کہ وفاقی ریاستوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ان کی ہر حال میں ضمانت دی جانا چاہیے۔
جرمنی کے دوبارہ اتحاد کو پچیس برس ہو گئے ہیں۔ یہاں آپ کی خدمت میں جرمنی کے سولہ وفاقی صوبوں کی تصویری جھلکیاں پیش کی جا رہی ہیں۔
باویریا
جنوبی صوبہ باویریا جرمنی میں سیاحوں کی سب سے مشہور منزل ہے۔ سالانہ ساڑھے سات لاکھ غیرملکی سیاح یہاں آتے ہیں۔ یہ صوبہ اپنی روایات اور خوبصورت مناظر کی وجہ سے عالمگیر شہرت رکھتا ہے۔ اس کی آبادی تقریباﹰ 12.5 ملین اور دارالحکومت میونخ ہے۔
باڈن وُرٹمبرگ
اس صوبے کا موٹو یہ ہے: ’’ہم معیاری جرمن زبان بولنے کے علاوہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔‘‘ اس صوبے میں مختلف علاقائی لہجوں کے ساتھ جرمن زبان بولی جاتی ہے۔ اس کی آبادی 10.7 ملین ہے اور دارالحکومت اشٹُٹ گارٹ ہے۔
برلن
جرمنی کے سولہ صوبوں میں سے تین شہر ایسے ہیں جو سٹی اسٹیٹ کے طور پر صوبے کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان میں برلن بھی شامل ہے۔ یہ شہر جرمنی کا وفاقی دارالحکومت بھی ہے اور اس کی آبادی 3.4 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ شہر مسلسل تبدیلیوں سے گزر رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ سیاح اس سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔
ہیمبرگ
شمالی شہر ہیمبرگ بھی ان تین شہروں میں شامل ہے، جو صوبوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہیمبرگ کی آبادی 1.7 ملین ہے۔ اس شہر کے ریڈ لائٹ ایریا کو ’دا گریٹ فریڈم اسٹریٹ‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور یہ جرمنی کے علاوہ دنیا بھر میں مشہور ہے۔
بریمن
بریمن جرمنی کا وہ تیسرا شہر ہے، جو ایک صوبہ بھی ہے لیکن یہ جرمنی کا سب سے چھوٹا وفاقی صوبہ ہے۔ اس کے رہائشیوں کی تعداد تقریباﹰ چھ لاکھ چونسٹھ ہزار ہے۔ یہاں کے لوگ روایات پسند تو ہیں لیکن ان کے دل دنیا کے لیے کھلے ہیں۔
لوئر سیکسنی
اس صوبے میں صرف چند بڑے شہر ہیں لیکن یہ دیہی علاقوں سے بھرا پڑا ہے۔ رقبے اور مختلف طرح کے مناظر کے لحاظ سے یہ جرمنی کا دوسرا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کی آبادی تقریباﹰ آٹھ ملین ہے اور دارالحکومت کا نام ہینوور ہے۔
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
یہ جرمنی کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے جس کی آبادی اٹھارہ ملین ہے۔ یہ صوبہ اپنے ثقافتی تنوع کے ساتھ ساتھ ’خوش دل اور محنتی لوگوں کے صوبے‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس صوبے کا سب سے بڑا شہر کولون ہے لیکن صوبائی دارالحکومت ڈسلڈورف ہے۔
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
کہا جاتا ہے کہ رائن لینڈ پلاٹینیٹ وائن، جنگلوں اور پیدل چلنے والوں کا صوبہ ہے۔ جرمنی کے چاروں بڑے دریا اس صوبے سے ہو کر گزرتے ہیں۔ اس صوبے میں چار ملین سے زائد لوگ آباد ہیں اور اس کا دارالحکومت مائنز نامی شہر ہے۔
ہَیسے
اگر کوئی جرمنی کے بارے میں جاننا چاہتا ہے تو اسے اس صوبے کا سفر لازمی کرنا چاہیے۔ یہ گرِم برادران کی جادوئی کہانیوں کا مرکز بھی ہے اور جرمنی کا مالیاتی مرکز کہلانے والا شہر فرینکفرٹ بھی اسی کا حصہ ہے۔ فرینکفرٹ وفاقی ریاست ہَیسے کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن صوبائی دارالحکومت ویزباڈن ہے۔ اس صوبے کی آبادی چھ ملین سے زائد ہے۔
زارلینڈ
انتہائی دلچسپ ماضی کا حامل یہ چھوٹا سا صوبہ جرمنی کے مغربی وسط حصے سے نیچے جنوب کی طرف واقع ہے۔ اس کی سرحدیں دو ملکوں فرانس اور لکسمبرگ سے ملتی ہیں۔ اس کی آبادی ایک ملین سے زائد ہے اور دارالحکومت کا نام زاربرُوکن ہے۔
شلیسوِگ ہولشٹائن
اگر یہ کہا جائے کہ یہ صوبہ ایک سمندری صوبہ بھی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اس صوبے کے شاندار جزائر، ساحل اور بندرگاہیں آپ کو اس کی سیر کے لیے مجبور کر دیتے ہیں۔ اس کی آبادی 2.8 ملین ہے اور دارالحکومت کِیل نامی شہر ہے۔
میکلن بُرگ بالائی پومیرانیا
میکلن بُرگ بالائی پومیرانیا نامی یہ صوبہ بحیرہء بالٹک کے جرمن ساحلی علاقے کا حصہ ہے۔ یہ صوبہ ماضی میں مشرقی جرمنی کا حصہ تھا لیکن 1990ء میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد وفاقی ریاست میں شامل ہونے والے پانچ نئے صوبوں میں سے ایک ہے۔ اس کی آبادی تقریباﹰ 1.7 ملین ہے اور ریاستی دارالحکومت کا نام شویرِین ہے۔
برانڈن بُرگ
دوبارہ اتحاد کے بعد جو صوبے متحدہ وفاقی جرمنی کا حصہ بنے، ان میں برانڈن بُرگ بھی شامل ہے۔ برلن کے رہائشی اکثر ایک روزہ سیر کے لیے اس صوبے میں آتے ہیں تاکہ قدرتی حسن سے لطف اندوز ہو سکیں۔ اس کی آبادی 2.5 ملین ہے اور دارالحکومت برلن کے نواح میں واقع شہر پوٹسڈام ہے۔
سیکسنی
یہ صوبہ جرمنی کے مشرق میں واقع ہے اور اس کی آبادی تقریباﹰ چار ملین ہے۔ یہ صوبہ خوبصورت فن تعمیر کی حامل عمارتوں کی وجہ سے مشہور ہے اور اس کی ایک مثال اس کا دارالحکومت ڈریسڈن ہے۔
سیکسنی انہالٹ
یہ صوبہ بھی اپنے ہاں فن تعمیر کے بے مثال نمونوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے جبکہ اس میں واقع اٹھارویں صدی کے مشہور باغات بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کی آبادی تقریباﹰ 2.4 ملین ہے اور دارالحکومت کا نام ماگڈے بُرگ ہے۔
تھیُورِنگیا
اس صوبے کا متبادل نام ’جرمنی کا سبز دل‘ ہے۔ یہ صوبہ جرمنی کے وسط میں واقع ہے اور اس کی آبادی تقریباﹰ 2.3 ملین ہے۔ اس کا دارالحکومت اَیرفُرٹ ہے۔ ماضی میں یہ صوبہ کمیونسٹ مشرقی جرمن ریاست کا حصہ تھا۔
16 تصاویر1 | 16
یوں ماضی کی طرح آج بھی وفاقی ریاستیں مرکزی حکومت کے اختیارات پر نظر بھی رکھتی ہیں اور ان میں توازن کو بھی یقینی بناتی ہیں۔ جرمنی میں وفاق اور وفاقی ریاستوں کے مابین سیاسی اختیارات اور طاقت کی تقسیم بالکل واضح ہے اور یہی تقسیم دونوں کے لیے ایک دوسرے کے حوالے سے 'نگرانی اور توازن‘ کے عمل کی ضامن بھی ہے۔
تین دہائیوں سے بھی زائد عرصہ قبل جب دونوں جرمن ریاستیں متحد ہوئیں، تو سابقہ مشرقی جرمن ریاست بھی وفاقی جمہوریہ جرمنی کے 'بنیادی قانون‘ کے دائرہ اثر میں آ گئی تھی۔
ترمیم کی کوششیں
جرمنی کے وفاقی نظام کے بارے میں شروع سے ہی کچھ تشویش اور چند انتظامی نقائص بھی پائے جاتے ہیں۔ مختلف وفاقی ریاستوں کی اقتصادی طاقت پہلے کی طرح آج بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔ آج کی وفاقی جرمن جمہوریہ میں آبادی کے لحاظ سے بھی بڑا تنوع پایا جاتا ہے۔ مثلاﹰ سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی آبادی 17 ملین سے زائد ہے تو شمال میں بریمن کی چھوٹی سی شہری ریاست کی آبادی صرف سات لاکھ کے قریب ہے۔
وفاقی جمہوریہء جرمنی کی ایک بڑی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SPD) ان دنوں اپنے قیام کے 150 سال منا رہی ہے۔ ’ ایس پی ڈی‘ کی ہنگامہ خیز تاریخ پابندیوں، جلا وطنی ، تعاقب، شکست اور کامیابیوں سے عبارت رہی ہے۔
تصویر: picture alliance / dpa
ایس پی ڈی کا قیام
یہ جماعت شہر لائپسگ میں جرمن مزدوروں کی تحریک کے دوران 23 مئی 1863ء کو قائم ہوئی تھی۔ ولی برانٹ ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے پہلے چانسلر تھے، جو پارٹی کے قیام کے تقریباً سو سال کے بعد اس عہدے پر فائز ہوئے۔ ان ڈیڑھ سو برسوں میں اب تک تین سوشل ڈیموکریٹ جرمن سربراہ حکومت بن چکے ہیں۔
تصویر: DW
غیر قانونی حیثیت سے مزدور انجمن تک کا سفر
ارکان کے ابتدائی اجلاس خفیہ مقامات پر موم بتیوں کی روشنی میں منعقد ہوتے تھے۔ آؤگسٹ بیبل اور ولہیلم لیب کنیشٹ بانی ارکان کی حیثیت سے ان میں شریک ہوتے تھے۔ ایس پی ڈی کا نصب العین مزدوروں کے حق میں آواز بلند کرنا تھا۔ فرڈینانڈ لازال نے 1863ء میں ADAV کے نام سے ایک مزدور انجمن کی بنیاد رکھی تھی۔ 1872ء میں ان ارکان کی تعداد بڑھ کر اکیس ہزار ہو چکی تھی اور پھر بڑھتی ہی چلی گئی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
پابندیوں کے باوجود کامیاب
صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں لوگوں کو اجرت اور کھانے کو روٹی ملنے لگی لیکن مزدوروں کے حالات ناگفتہ بہ تھے۔ بھاری صنعتوں میں کام سخت اور صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ تھا۔ مزدور انجمنوں میں بڑھتی رکنیت کے آگے 1878ء کے سوشلسٹ قوانین کے ذریعے بند باندھنے کی کوشش کی گئی اور سوشل ڈیموکریٹ تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کے باوجود ایس پی ڈی 1890ء تک ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر چکی تھی۔
تصویر: Ullstein Bild
ایس پی ڈی کی تنظیمی درسگاہ
برلن میں ایس پی ڈی کی پارٹی درس گاہ میں روزا لکسمبرگ اور آؤگسٹ بیبل جیسے ممتاز سوشل ڈیموکریٹس نے تربیت حاصل کی۔ اپنے والد ولہیلم بیبل اور اُن کے الفاظ کی یاد میں:’’علم طاقت ہے، طاقت علم ہے۔‘‘ 1912ء تک ایس پی ڈی جرمنی میں سب سے زیادہ ارکان کی حامل اور سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت بن چکی تھی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
وائیمار کا ہنگامہ خیز دور
ایس پی ڈی کے سیاستدان فلیپ شائیڈے مان برلن اسمبلی (رائش ٹاگ) کی بالکونی میں۔ اُنہوں نے نو نومبر 1918ء کو ری پبلک بنانے کا اعلان کیا تھا۔ ایک سال بعد ہی ایس پی ڈی کے چیئرمین فریڈرش ایبرٹ رائش چانسلر بن گئے اور خواتین کے لیے ووٹ کا حق بھی ایک حقیقت بن گیا، جس کے لیے یہ جماعت 1891ء سے کوششیں کر رہی تھی۔ سوشل ڈیموکریٹس 1932ء تک مضبوط ترین سیاسی قوت رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نازی حکومت کی شدید مخالفت
23 مئی 1933 کو سوشل ڈیموکریٹ رکن پارلیمان اوٹو ویلز نے جرمن پارلیمان میں ہٹلر کے متنازعہ قوانین کے خلاف آواز بلند کی۔ انہوں نے کہا کہ ’ہماری آزادی اور زندگی تو ہم سے چھینی جا سکتی ہے، لیکن ہماری عزت کا سودا نہیں کیا جا سکتا ‘‘۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد مزدور تنظیموں کو کچل دیا گیا اور ایس پی ڈی پر پابندی عائد کر دی گئی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
تعاقب اور جلا وطنی
ہٹلر کے جنگی دستوں کے باوردی ارکان کی نگرانی میں سوشل ڈیموکریٹ رہنماؤں کو دیواروں پر سے نعرے ہٹانا پڑے۔ متعدد سوشل ڈیموکریٹس کو حراست میں لے لیا گیا، جبر و تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا قتل کر دیا گیا۔ اوٹو ویلز نے 1933ء میں پراگ میں ایس پی ڈی کی جلا وطن شاخ Sopade کی بنیاد رکھی، جو بعد میں پیرس اور 1940ء تا 1945ء لندن میں سرگرم رہی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
ایس پی ڈی کا نیا دور
1946ء میں فرینکفرٹ میں کُرٹ شوماخر خطاب کر رہے ہیں، جو اتحادی افواج کے زیر قبضہ مغربی جرمن علاقوں میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ تھے۔ سابق سوویت یونین کے زیر اثرعلاقوں میں ایس پی ڈی اور کے پی ڈی کو زبردستی ایس ای ڈی میں شامل کر دیا گیا۔ مغربی حصے میں 1949ء میں منعقدہ پہلے پارلیمانی انتخابات میں سوشل ڈیموکریٹس کو CSU کے ہاتھوں شکست ہوئی اور پھر کئی سال تک کے لیے یہ جماعت اپوزیشن میں چلی گئی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
ایک مزدور تنظیم سے ایک جدید عوامی جماعت تک
1959ء میں گوڈیز برگر پروگرام کی منظوری دیتے ہوئے سوشل ڈیموکریٹس نے مثالی سوشلسٹ نظریات کو خیر باد کہہ دیا اور اپنے دروازے رائے دہندگان کے وسیع تر طبقات کے لیے کھول دیے۔ ایس پی ڈی نے سماجی فلاح پر مبنی آزاد معیشت اپنانے اور ملک کا دفاع کرنے کا عزم ظاہر کیا، جو کہ سی ڈی یُو اور سی ایس یُو کے ساتھ اُس بڑی مخلوط حکومت میں شمولیت کی شرائط تھیں، جس میں 1966ء سے ولی برانٹ نائب چانسلر بن گئے۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
ولی برانٹ کے زیر سایہ ایک نیا آغاز
وارسا میں گھٹنے ٹیکتے ہوئے سوشل ڈیموکریٹ چانسلر ولی برانٹ نے اپنی حکومت کی مشرقی یورپ کی جانب نئی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی۔ اُن کے پہلے حکومتی پالیسی بیان کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ’زیادہ جمہوریت کی ہمت کی جائے‘۔ بعد کے برسوں میں برانٹ نے قانون، خاندان اور مساوی حقوق کے شعبوں میں کئی ایک اصلاحات متعارف کروائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پارٹی کے اندر احتجاجی تحریک
1968ء میں طلبہ کی ہنگامہ خیز احتجاجی تحریک کے نتیجے میں پارٹی میں شامل ہونے والے ارکان تازہ ہوا کا ایک جھونکا تھے تاہم وہ پارٹی کے اندر تنازعات کو ہوا دینے کا بھی باعث بنے۔ 1974ء میں ہائیڈے ماری وچورک سوئیل کی صورت میں پہلی مرتبہ ایک خاتون یوتھ وِنگ کی سربراہ منتخب ہوئیں۔
تصویر: ullstein bild
ہیلمٹ شمٹ اور’ جرمن خزاں‘
چانسلر ہیلمٹ شمٹ کے دور حکومت کے مشکل ترین لمحات میں سے ایک لمحہ وہ تھا، جب چانسلر نے 1977ء میں آجرین کی تنظیم کے مقتول صدر ہنس مارٹن شلائر کی بیوہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ بائیں بازو کی انتتہا پسند تنظیم ’ریڈ آرمی فیکشن‘ کی دہشت گردانہ سرگرمیاں شمٹ کے لیے ایک آزمائش کی حیثیت اختیار کر گئیں۔ پارٹی میں اندرونی تنازعات بھی زور پکڑ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
حزب اختلاف کی حیثیت سے مشکل دور
1982ء میں سوشل لبرل اتحاد کے ختم ہونے کے بعد ایس پی ڈی ایک بار پھر کسی سال کے لیے اپوزیشن میں چلی گئی۔ 1994ء میں جرمن پارلیمان کے انتخابات میں ایس پی ڈی کے روڈولف شارپنگ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد پارٹی کے اندر ہونے والی ووٹنگ میں وہ پارٹی قائد کے انتخاب میں غیر متوقع طور پر صوبے زار لینڈ کے وزیر اعلیٰ آسکر لافونتین سے ہار گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایس پی ڈی اور اصلاحات کا چیلنج
ہیلمٹ کوہل کے کئی سالہ دور کے بعد ستمبر 1998ء میں ایس پی ڈی کی حکومت بنی۔ ماحول دوست گرین پارٹی کے ساتھ بننے والی اس مخلوط حکومت میں گیرہارڈ شروئیڈر ایس پی ڈی کی جانب سے چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس دوران شروئیڈر نے ایجنڈا 2010ء کے نام سے اصلاحات کا ایک جامع پروگرام شروع کیا۔ ٹریڈ یونین تنظیموں نے سخت تنقید کی اور ارکان تیزی سے اس جماعت کو چھوڑ کر نئی جماعت ’دی لِنکے‘ میں شامل ہونے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چانسلر شپ کے مشکل امیدوار
پیئر اشٹائن بروک ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے چانسلر شپ کے امیدوار ہیں۔ سابق وزیر مالیات کو اقتصادی ماہر کی حیثیت سے اس بحرانی دور میں اس عہدے کے لیے موزوں امیدوار قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم اشٹائن بروک کو اپنے بے باک بیانات کی وجہ سے اکثر اپنی پارٹی کے اندر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں میں وہ انگیلا میرکل سے بہت پیچھے ہیں۔
اس بات کو 1950 کی دہائی میں مغربی جرمنی میں موجود جنگ کی فاتح طاقتوں نے بھی محسوس کر لیا تھا اور بون میں وفاقی حکومت سے ضروری فیصلوں کے مطالبے بھی کیے تھے۔ لیکن تب سے آج تک جرمنی کی وفاقی ریاستوں کی حدود میں اصلاحات کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔
برلن اور برانڈن برگ کے ادغام کا ریفرنڈم
ایسی اصلاحات کی آخری بڑی کوشش 1996ء میں کی گئی تھی۔ تب ایک ریفرنڈم کا انعقاد کرایا گیا تھا۔ وفاقی دارالحکومت برلن ایک شہری ریاست ہے جو چاروں طرف سے رقبے کے لحاظ سے بہت بڑی ریاست برانڈن برگ میں گھری ہوئی ہے۔
ریفرنڈم میں عوام سے ان دونوں وفاقی ریاستوں کے ممکنہ ادغام سے متعلق رائے لی گئی تھی، مگر عوامی فیصلہ منفی رہا تھا۔
امریکی فوج تقریباﹰ 75 سالوں سے جرمنی میں موجود ہے۔ یہ فوج دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں فاتح کے طور پر داخل ہوئی اور کچھ عرصے میں ہی جرمنی کی اتحادی بن گئی۔ لیکن یہ باہمی تعلق ہمیشہ ہموار نہیں رہا ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. May
رمشٹائن ملٹری ائیربیس کا اہم دورہ
جرمنی میں تقریباﹰ 35 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں جن کی اکثریت ملک کے مغرب اور جنوب میں ہے۔ لیکن اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس 75 سالہ پرانے تعلق میں تبدیلیاں لانے کے خواہشمند ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جرمنی سے بارہ ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ فوج کی واپسی کا یہ عمل امریکا اور جرمنی کے مابین فوجی اتحاد کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
سوویت یونین کا کردار
جرمنی میں امریکی فوج دوسری جنگ عظیم کے بعد آنا شروع ہوئی تھی۔ امریکا نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے جرمنی کو نازیوں سے آزاد کروایا تھا۔ تاہم اس وقت اس کا اتحادی ملک سوویت یونین جلد ہی دشمن بن گیا تھا۔ اس تصویر میں تقسیم شدہ برلن میں امریکی فوج اورسابقہ سوویت یونین کے ٹینک ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایلوس پریسلے
امریکی فوجیوں نے جرمنی کو امریکی ثقافت سے بھی روشناس کروایا۔ کنگ آف ’روک ن رول‘ ایلوس پریسلے نے ایک امریکی فوجی کے طور پر سن 1958 میں جرمنی میں اپنی فوجی خدمات کا آغاز کیا تھا۔ اس تصویر میں پریسلے یہ اپنے مداحوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Heidtmann
جرمنی اب اپنا گھر
پچھلے کچھ برسوں سے امریکی فوج جرمن سر زمین پر مستقل قیام کیے ہوئے ہے۔ امریکی اڈوں کے گردونواح میں امریکی فوج اور ان کے خاندانوں کے لیے کئی رہائشی مقامات تعمیر کیے گئے ہیں۔ الگ تھلگ رہائش کا یہ نظام امریکی فوجیوں کا جرمنی میں مکمل انضمام میں دشواری کا سبب بھی بنتا ہے۔ سن 2019 میں امریکی فوج نے 17،000 امریکی سویلین شہریوں کو جرمنی میں ملازمت پر رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
امریکا اور جرمن خاندانوں کا تعلق
الگ رہائشی علاقوں کے باوجود، جرمن اور امریکی خاندانوں میں رابطہ رہا ہے۔ فوج کی تعیناتی کے ابتدائی برسوں میں برلن میں موسم گرما اور سرما میں پارٹیوں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ امریکی فوج مقامی بچوں کے لیے کرسمس پارٹی کا اہتمام بھی کرتی تھی اور ہر سال جرمنی اور امریکا دوستی کے ہفتہ وار جشن منائے جاتے تھے۔
سرد جنگ کے دوران وفاقی جمہوریہ جرمنی ایک اہم اسٹریٹیجک مقام بن گیا تھا۔ سن 1969 میں نیٹو ’مینوور ریفورجر ون‘ امریکی اور جرمن فوج کے زیر اہتمام بہت سی مشترکہ جنگی مشقون میں سے ایک تھی۔ اس میں دشمن سوویت یونین اور مشرقی جرمنی سمیت وارسا معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک تھے۔
تصویر: picture-alliance/K. Schnörrer
جوہری میزائل پر تنازعہ
سن 1983 میں متلانگن میں امریکی اڈے پر پریشنگ 2 راکٹ لائے گئے تھے۔ جوہری وار ہیڈس سے لیس شدہ یہ راکٹس ایک سیاسی مسئلہ بن گئے تھے۔ امن کے خواہاں سرگرم کارکنان ان میزائلوں کے خلاف تھے۔ ان کے احتجاجی مظاہروں میں مشہور شخصیات بھی شریک ہوتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راستے جدا
تقریباﹰ20 سال بعد یعنی 2003ء میں امریکی صدر جارج بش نےعراق کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ جنگ کی وجہ عراق کا وہ مبینہ پروگرام تھا، جس کے تحت وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہے تھے۔ اس دور کے جرمن چانسلر گیرہارڈ شروڈر نے جرمنی کو اس جنگ سے دور رکھا۔ اور برلن اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpa_pool/A. Altwein
جرمنی پھر بھی اہم
اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی سے اپنے بارہزار فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے پر قائم رہتے بھی ہیں تو بھی جرمنی امریکا کے لیے ایک اہم اسٹریٹیجک ملک رہے گا۔ رمشٹائن کا اڈہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ یورپ میں امریکی فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ یہاں سے ہی متنازعہ ڈرون مشنز افریقہ اور ایشیا میں پرواز کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
9 تصاویر1 | 9
وفاقی نظام میں اصلاحات
کئی حلقوں کو یقین ہے کہ جرمن فیڈرل سسٹم میں اصلاحات آج بھی ناگزیر ہیں۔ متناسب نمائندگی کے نظام کے باعث برلن میں اکثر وفاقی حکومتیں مخلوط حکومتیں ہوتی ہیں۔ اسی لیے تمام سولہ ریاستی حکومتوں اور مرکزی حکومت کے خد و خال ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ کبھی کبھی ان 17 حکومتوں کی متحدہ اور متفقہ سوچ عملاﹰ ناممکن ہو جاتی ہے۔
یہ اسی وفاقی نظام حکومت کا نتیجہ ہے کہ آج کے جرمنی میں کبھی کبھی وفاقی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کا اپنی اپنی ریاستوں کی آزادی کے تحفظ کی کوششوں کے دوران رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے وہ قرون وسطیٰ کے دور کی ریاستوں کے شہزادے ہوں۔ لیکن دوسری طرف یہی وفاقی نظام دوسری عالمی جنگ کے بعد سے آج تک جرمنی کی کامیابی میں کلیدی اہمیت کا حامل بھی رہا ہے۔
اس وفاقی نظام کے بغیر نا تو دوسری عالمی جنگ کے بعد دس ملین سے زائد مہاجرین کا جرمن ریاست میں انضمام ممکن ہوتا اور نا ہی 1990ء میں دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کے بعد کے مسائل پر قابو پانا، جو دراصل جدید دنیا کی سیاسی تاریخ میں ایک انتہائی متاثر کن کامیابی ثابت ہوا ہے۔
ماتھیاس فان ہَیلفَیلڈ (م م / ا ا)
برلن کا رائش ٹاگ، جمہوریت کا گھر
جرمن دارالحکومت برلن میں واقع تاریخی عمارت رائش ٹاگ کی گنبد نما چھت دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہ عمارت جرمن تاریخ کی کئی میٹھی اور تلخ یادیں ساتھ لیے ہوئے ہے، نازی دور حکومت سے لے کر جرمنی کے اتحاد تک۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Spata
رائش ٹاگ کا لان
رائش ٹاگ کا لان منتخب ارکان پارلیمان کو پرسکون انداز میں غور وفکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سن انیس سو ننانوے سے یہ عمارت جرمن بنڈس ٹاگ یعنی جرمن پارلیمان کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
شیشے کا گنبد
رائش ٹاگ کا منفرد گنبد مشہور آرکیٹیکٹ سر نورمان فوسٹر کی تخلیق ہے۔ برلن آنے والے سیاحوں کے لیے یہ مقام انتہائی مقبول ہے۔ اس گنبد کی اونچائی چالیس میٹر (130فٹ) ہے، جہاں سے برلن کا شاندار نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس گنبد سے پارلیمان کا پلینری ہال بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کا اجازت ہے کہ وہ قانون سازوں کو مانیٹر بھی کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
پارلیمان کی شاندار عمارت
رائش ٹاگ کی تاریخی عمارت سن 1894 سے دریائے سپری کے کنارے کھڑی ہے۔ آرکیٹیکٹ پال والوٹ نے جرمن پارلیمان کے لیے پہلی عمارت تخلیق کی تھی، یہ الگ بات ہے کہ تب جرمنی میں بادشاہت کا دور تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
جمہوریت ۔۔۔ بالکونی سے
نو نومبر سن انیس سو اٹھارہ کو جب جرمنی میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا تو سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان فیلپ شائڈے من نے جرمنی کو جمہوریہ بنانے کا اعلان کیا۔ اس عمارت کے بائیں طرف واقع یہ بالکونی اسی یاد گار وقت کی ایک علامت قرار دی جاتی ہے، یعنی جمہوریت کے آغاز کی۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/M. Weber
رائش ٹاگ میں آتشزدگی
ستائیس فروری سن انیس سو تینیتس میں یہ عمارت آتشزدگی سے شدید متاثر ہوئی۔ اس وقت کے چانسلر اڈولف ہٹلر نے اس واقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جرمنی میں آمریت نافذ کر دی۔ کیمونسٹ سیاستدان میرینوس فان ڈیر لوبے Marinus van der Lubbe کو اس سلسلے میں مجرم قرار دے دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
مقتول سیاستدانوں کی یادگار
رائش ٹاگ کی عمارت کے باہر ہی لوہے کی سلیں ایک منفرد انداز میں نصب ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اس آرٹ کے نمونے کی ہر سل پر ان اراکین پارلیمان کے نام درج ہیں، جو سن 1933 تا سن 1945 نازی دور حکومت میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/H. Hattendorf
روسی فوجیوں کی گرافٹی
رائش ٹاگ نہ صرف جرمنی میں نازی دور حکومت کے آغاز کی کہانی اپنے ساتھ لیے ہوئے بلکہ اس کے خاتمے کی نشانیاں بھی اس عمارت میں نمایاں ہیں۔ روسی افواج نے دو مئی سن 1945 میں کو برلن پر قبضہ کرتے ہوئے اس عمارت پر سرخ رنگ کا پرچم لہرایا تھا۔ روسی فوج کی یہ کامیابی دوسری عالمی جنگ کے اختتام کا باعث بھی بنی۔ تب روسی فوجیوں نے اس عمارت کی دیوراوں پر دستخط کیے اور پیغامات بھی لکھے، جو آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
برلن کی تقسیم
دوسری عالمی جنگ کے دوران رائش ٹاگ کی عمارت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ سن 1948 میں برلن کے میئر ایرنسٹ روئٹر نے لوگوں کے ایک ہجوم کے سامنے اسی متاثرہ عمارت کے سامنے ایک یادگار تقریر کی تھی۔ روئٹر نے اتحادی فورسز (امریکا، برطانیہ اور فرانس) سے پرجوش مطالبہ کیا تھا کہ مغربی برلن کو سوویت یونین کے حوالے نہ کیا جائے۔ اپنے اس موقف میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
دیوار برلن کے سائے میں
جب سن 1961 میں دیوار برلن کی تعمیر ہوئی تو رائش ٹاگ کی عمارت مغربی اور مشرقی برلن کی سرحد پر تھی۔ تب اس عمارت کے شمال میں دریائے سپری اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا تھا۔ تب مشرقی برلن کے لوگ مبینہ طور پر اس دریا کو عبور کر کے مغربی برلن جانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ اس کوشش میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر سن 1970 میں رائش ٹاگ کے قریب ہی ایک خصوصی یادگار بھی بنائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kunigkeit
دیوار برلن کا انہدام اور جرمنی کا اتحاد
نو نومبر سن 1989 میں دیوار برلن کا انہدام ہوا تو پارلیمان کی یہ عمارت ایک مرتبہ پھر شہر کے وسط میں شمار ہونے لگی۔ چار ماہ بعد اس دیوار کو مکمل طور پر گرا دیا گیا۔ دو اور تین اکتوبر سن 1990 کو لاکھوں جرمنوں نے رائش ٹاگ کی عمارت کے سامنے ہی جرمنی کے اتحاد کی خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/360-Berlin
جرمن پارلیمان کی منتقلی
رائش ٹاگ کی عمارت کو سن 1995 میں مکمل طور پر ترپالوں سے چھپا دیا گیا تھا۔ یہ آرٹ ورک کرسٹو اور جین کلاوڈ کا سب سے شاندار نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ رائش ٹاگ کی چھپی ہوئی عمارت کو دیکھنے کی خاطر لاکھوں افراد نے برلن کے اس تاریخی مقام کا رخ کیا۔ تب متحد برلن میں سب کچھ ممکن ہو چکا تھا یہاں تک اسے وفاقی جموریہ جرمنی کی پارلیمان کا درجہ ہی کیوں نہ دے دیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
مستقبل کی جھلک
آرکیٹیکٹ نورمان فوسٹر اس ٹیم کے سربراہ تھے، جس نے رائش ٹاگ کی عمارت کی تعمیر نو کی۔ چار سالہ محنت کے بعد اس عمارت کا بنیادی ڈھانچہ بدلے بغیر اسے نیا کر دیا گیا۔ اب یہ ایک جدید عمارت معلوم ہوتی ہے، جس کا شیشے سے بنا گنبد آرکیٹکچر کا ایک منفرد نمونہ ہے۔ ستمبر 1999 میں اس عمارت کو جرمن پارلیمان بنا دیا گیا۔ سیاستدان اب اسی عمارت میں بیٹھ کر پارلیمانی طریقے سے جرمنی کے سیاسی مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔