فوجيوں کو ہم جنس پرستی سے روکنے پر بھارتی آرمی چيف پر تنقيد
12 جنوری 2019
بھارتی فوج کے سربراہ نے ايک حاليہ بيان ميں کہا کہ ان کی فوج ميں ہم جنس پرستی ناقابل قبول ہے۔ اس بيان پر انہيں سوشل ميڈيا پليٹ فارمز پر شدید تنقيد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اشتہار
بھارتی فوج کے چيف جنرل بپن راوت اپنے ايک حاليہ بيان پر ايک مرتبہ پھر تنقید کی زد ميں ہيں۔ سوشل ميڈيا پليٹ فارمز پر انہیں وجہ سے شدید تنقید کا سامنا ہے کہ انہوں نے فوجيوں کو ہم جنس پرستی سے منع کيوں کيا؟ جنرل راوت نے دارالحکومت نئی دہلی ميں جمعرات دس جنوری کو ايک پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’اگر سويلينز ہم جنس پرستی پر مبنی افعال سر انجام دينا چاہتے ہيں تو وہ ايسا کريں ليکن فوج ميں يہ نہيں چلے گا۔‘‘ بھارتی فوجی چيف کے بقول آرمی ميں ہم جنسی پرستی ناقابل قبول ہے۔
ستمبر سن 2018 ميں اپنے ايک تاريخی فيصلے ميں بھارتی عدالت عظمیٰ نے برطانوی دور کے ہم جنس پرستی کو مجرمانہ فعل قرار دينے والے ايک قانون کو ختم کر ديا تھا۔ البتہ يہ امر اہم ہے کہ بھارتی فوج کے اہلکاروں پر اُن کے اپنے ذرا مختلف قوانين لاگو ہوتے ہيں۔ فوجی قوانين ميں چند ايسے معاملات پر سخت موقف اپنايا گيا ہے، جن پر عام شہريوں کے ليے آئين ميں مقابلتاً زيادہ چھوٹ ہے۔ فوجی قانون ميں ’ہر وہ فعل جو ظالمانہ ہو، غير اخلاقی ہو، غير فطرتی ہو اور بے عزتی کا سبب بنے‘، مجرمانہ فعل مانا جاتا ہے۔ ايسے کسی فعل پر سات سال تک کی قيد ہو سکتی ہے۔
بھارت ميں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے ليے سرگرم کارکن اشوک رو نے فوج کے چيف جنرل بپن راوت کے بيان کو غير ذمہ دارانہ قرار ديا ہے۔ ان کا اس بارے ميں کہنا تھا، ’’ميں يہ نہيں کہوں گا کہ وہ ہم جنس پرستی سے خوفزدہ ہيں تاہم انہوں نے اس معاملے ميں لا علمی اور معلومات نہ ہونے کا مظاہرہ کيا۔‘‘ اشوک رو کے مطابق جنرل بپن راوت کو يہ سمجھنا چاہيے کہ وہ تعداد کے اعتبار سے دنيا کی ايک بہت بڑی فورس کی سربراہی کر رہے ہيں اور چاہے وہ اسے پسند کريں يا نہيں، اتنی بڑی تعداد ميں ضرور کچھ فوجی ہم جنس پرست رجحانات رکھتے ہوں گے۔ رو نے کہا ’’جنرل راوت کو ان کی صحت اور خوشی اور فوجيوں کی خوشحالی کی فکر ہونی چاہيے نہ کہ وہ ان کے تعاقب ميں نکل پڑيں اور انہيں نشانہ بنائيں۔‘‘
ہم جنس پرستی کو مجرمانہ فعل قرار دينے والے برطانوی راج کے قانون کو ختم کرانے کے عمل ميں سرگرم ايک وکيل آنند گروور کے مطابق يہ کافی حوصلہ شکن بات ہے کہ جنرل بپن راوت کی ساکھ کے حامل کسی شخص نے ايسا بيان ديا۔ تھامسن روئٹرز فاؤنڈيشن سے بات چيت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’اس سے ايک ہم جنس پرست شخص محسوس کرے گا کہ اس کے ساتھ امتيازی سلوک اپنايا گيا اور وہ خود کو مجرم محسوس کرے گا۔‘‘
واضح رہے کہ يہ پہلا موقع نہيں جب بھارتی فوج کے چيف تنازعے کی زد ميں ہيں۔ پچھلے ماہ ٹيلی وژن پر ايک انٹرويو کے دوران وہ يہ کہہ بیٹھے تھے کہ خواتین فوج ميں لڑاکا مشنوں کے ليے تيار نہيں کيونکہ اس سے ان کی ازدواجی ذمہ دارياں بھی متاثر ہوں گی اور وہ ميدان جنگ ميں اچھا محسوس نہيں کريں گی۔
دنیا کی دس سب سے بڑی فوجیں
آج کی دنیا میں محض فوجیوں کی تعداد ہی کسی ملک کی فوج کے طاقتور ہونے کی نشاندہی نہیں کرتی، بھلے اس کی اپنی اہمیت ضرور ہے۔ تعداد کے حوالے سے دنیا کی دس بڑی فوجوں کے بارے میں جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Reuters/F. Aziz
چین
سن 1927 میں قائم کی گئی چین کی ’پیپلز لبریشن آرمی‘ کے فوجیوں کی تعداد 2015 کے ورلڈ بینک ڈیٹا کے مطابق 2.8 ملین سے زیادہ ہے۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز ’’آئی آئی ایس ایس‘‘ کے مطابق چین دفاع پر امریکا کے بعد سب سے زیادہ (145 بلین ڈالر) خرچ کرتا ہے۔
تصویر: Reuters/Xinhua
بھارت
بھارت کی افوج، پیرا ملٹری اور دیگر سکیورٹی اداروں کے ایسے اہلکار، جو ملکی دفاع کے لیے فوری طور پر دستیاب ہیں، کی تعداد بھی تقریبا اٹھائیس لاکھ بنتی ہے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ اکاون بلین ڈالر سے زائد ہے اور وہ اس اعتبار سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters
روس
ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق روسی فیڈریشن قریب پندرہ لاکھ فعال فوجیوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے تاہم سن 2017 میں شائع ہونے والی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق روسی فوج کے فعال ارکان کی تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب بنتی ہے اور وہ قریب ساٹھ بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
شمالی کوریا
شمالی کوریا کے فعال فوجیوں کی مجموعی تعداد تقربیا تیرہ لاکھ اسی ہزار بنتی ہے اور یوں وہ اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Wong Maye-E
امریکا
آئی آئی ایس ایس کی رپورٹ کے مطابق 605 بلین ڈالر دفاعی بجٹ کے ساتھ امریکا سرفہرست ہے اور امریکی دفاعی بجٹ کی مجموعی مالیت اس حوالے سے ٹاپ ٹین ممالک کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ تاہم ساڑھے تیرہ لاکھ فعال فوجیوں کے ساتھ وہ تعداد کے حوالے سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
پاکستان
پاکستانی فوج تعداد کے حوالے سے دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستانی افواج، پیرا ملٹری فورسز اور دیگر ایسے سکیورٹی اہلکاروں کی، جو ملکی دفاع کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہیں، مجموعی تعداد نو لاکھ پینتیس ہزار بنتی ہے۔ آئی آئی ایس ایس کے مطابق تاہم فعال پاکستانی فوجیوں کی تعداد ساڑھے چھ لاکھ سے کچھ زائد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/SS Mirza
مصر
ورلڈ بینک کے مطابق مصر آٹھ لاکھ پینتیس ہزار فعال فوجیوں کے ساتھ اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ تاہم آئی آئی ایس ایس کی فہرست میں مصر کا دسواں نمبر بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
برازیل
جنوبی امریکی ملک برازیل سات لاکھ تیس ہزار فوجیوں کے ساتھ تعداد کے اعتبار سے عالمی سطح پر آٹھویں بڑی فوج ہے۔ جب کہ آئی آئی ایس ایس کی فہرست میں برازیل کا پندرھواں نمبر ہے جب کہ ساڑھے تئیس بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ وہ اس فہرست میں بھی بارہویں نمبر پر موجود ہے۔
تصویر: Reuters/R. Moraes
انڈونیشیا
انڈونیشین افواج، پیرا ملٹری فورسز اور دفاعی سکیورٹی کے لیے فعال فوجیوں کی تعداد پونے سات لاکھ ہے اور وہ اس فہرست میں نویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/R.Gacad
جنوبی کوریا
دنیا کی دسویں بڑی فوج جنوبی کوریا کی ہے۔ ورلڈ بینک کے سن 2015 تک کے اعداد و شمار کے مطابق اس کے فعال فوجیوں کی تعداد چھ لاکھ چونتیس ہزار بنتی ہے۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق قریب چونتیس بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ جنوبی کوریا اس فہرست میں بھی دسویں نمبر پر ہے۔