جرمن فوج نے 2016ء سے یہ طے کیا تھا کہ فوجیوں کو جنگ کے دوران استعمال ہونے والے نئے بوٹ فراہم کیے جائیں۔ اب پتہ چلا ہے کہ ان فوجیوں کو ابھی مزید تین برس انتظار کرنا ہو گا۔
اشتہار
جرمن فوجیوں کو نئے فوجی بوٹ حاصل کرنے کے لیے 2022ء تک انتظار کرنا ہو گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کی وجہ 'انڈسٹری کی محدود پیداواری صلاحیت‘ کو قرار دیا گیا ہے۔
جرمن فوج یا 'بُنڈس ویئر‘ کی طرف سے اپنے فوجیوں کو لڑاکا مشن کے دوران استعمال ہونے والے نئے فوجی بوٹ بروقت فراہم کرنے میں ناکامی سنجیدہ نوعیت کے اسکینڈلز میں ایک اور کا اضافہ ہے۔ قبل ازیں جرمن فوج پر کسی جنگی صورتحال کے لیے تیاری اور جدید آلات کی فراہمی کے حوالے سے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
وفاقی جرمن فوج، زلفوں کی لمبائی کا جھگڑا عدالت میں
وفاقی جرمن فوج کا ایک اہلکار شانوں تک لمبے بال رکھنا چاہتا ہے۔ عدالت نے فوجی کی اپیل مسترد کر دی ہے لیکن ساتھ ہی وفاقی جرمن فوج کو زلفوں سے متعلق قوانین میں تبدیلی لانے کا حکم بھی دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Brandt
فوجی لیکن گوتھ کلچر کا حصہ
مدعی گوتھ کلچر کو پسند کرتا ہے۔ وہ فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ تصویر میں نظر آنے والے اس شخص کی طرح گوتھ اسٹائل کا دلدادہ ہے۔ نجی زندگی کے دوران تو لمبے بال مسئلہ نہیں ہیں لیکن دوران ڈیوٹی فوجی ضوابط کے تحت لمبے بال رکھنے کی ممانعت ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Prosch
سخت رویہ، نازک جلد
جرمن فوج کے قوانین کے مطابق سروس کے دوران ایک فوجی کے بال اس طرح ہونے چاہئیں کہ سیدھا کھڑا ہونے کی صورت میں بال نہ تو یونیفارم اور نہ ہی شرٹ کے کالر کو چھوئیں۔ یہ قانون صرف مرد فوجیوں کے لیے ہے۔
تصویر: Bundeswehr/Jana Neumann
خواتین کی چُٹیا
بنیادی تربیت سے پہلے مردوں کے برعکس خواتین فوجیوں کے بال نہیں کاٹے جاتے۔ اگر خواتین کے بال کندھوں سے بھی طویل ہیں تو انہیں چٹیا بنانی ہوتی ہے۔ عدالت کے مطابق یہ مردوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Reinhardt
خواتین فوجیوں کی تلاش
عدالت نے وزارت دفاع کے موقف کی تائید کی ہے۔ وزارت دفاع کے مطابق خواتین لمبے بالوں کو حساس نسائیت کی وجہ سے پسند کرتی ہیں۔ جرمن فوج کو خواتین کے لیے پرکشش بنانے کی وجہ سے یہ اجازت دی گئی ہے۔
تصویر: Bundeswehr / Jonas Weber
لمبی داڑھی اور لمبی زلفوں کی اجازت؟
وفاقی انتظامی عدالت نے فوجی اہلکار کی اپیل تو مسترد کر دی ہے لیکن ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا ہے کہ فوج اپنے ملازمین کی نجی زندگی میں بہت زیادہ دخل اندازی کر رہی ہے، لہذا اسے اپنے قوانین میں تبدیلی لانا ہو گی۔ ہو سکتا ہے جلد ہی جرمن فوجیوں کو لمبے بال اور لمبی داڑھی رکھنے کی اجازت مل جائے۔
تصویر: Bundeswehr/Jana Neumann
لڑائی سے پہلے بال تراشیں
تقریبا پچاس برس قبل وفاقی جرمن فوج کے اہلکاروں کو گردن کے پیچھے فیشن ایبل بال رکھنے کی اجازت تھی۔ سن 1971 میں ماتھے پر بھی لمبے بال رکھے جا سکتے تھے لیکن اس کے ایک برس بعد ہی یہ اجازت ختم کر دی گئی تھی۔
تصویر: Bundeswehr/Krämer
بیوروکریسی کے پھندے میں
ستر کی دہائی کے آغاز میں جرمن فوجیوں کو لمبے بال رکھنے کی اجازت تھی اور اسی وجہ سے بیرون ملک جرمن فوج کو ’جرمن ہیئر فورس‘ کہا جانے لگا تھا۔ لمبے بالوں کی وجہ سے جو صحیح طریقے سے ڈیوٹی سرانجام نہیں دے پاتا تھا، اسے بالوں کو قابو میں رکھنے والی ایک ٹوپی دی جاتی تھی۔ وفاقی جرمن فوج نے سات لاکھ چالیس ہزار جالی والی ٹوپیاں منگوائی تھیں۔
تصویر: Bundeswehr/Krämer
اپنے وطن کے لیے
اس فوجی کو خصوصی اجازت فراہم کی گئی تھی۔ سارجنٹ ہنس پیٹر کی یہ تصویر سن 2005 میں لی گئی تھی۔ جرمن فوج کا یہ اہلکار کلاسیک مونچھوں کے مقابلے میں پہلی پوزیشن بھی جیت چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Weihs
چہرہ چھپائیے
جب خود کو دشمن کی نگاہوں سے چھپانے کی بات کی جائے تو پھر سب کچھ جائز ہے۔ یہ دونوں فوجی نشانچی ہیں اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالے ہوئے ہیں۔
تصویر: Bundeswehr/Jana Neumann
9 تصاویر1 | 9
جرمن فوج نے 2016ء میں یہ طے کیا تھا کہ فوجیوں کو جنگ یا لڑائی کے دوران اس وقت زیر استعمال 'آل سیزن بوٹ‘ یا ہر موسم میں استعمال ہونے والے جوتوں کی بجائے دو مختلف طرح کے جوتے 'ہیوی کمبیٹ بوٹ‘ اور 'لائٹ کمبیٹ بوٹ‘ فراہم کیے جائیں گے۔
یہ ہدف سال 2020ء کے لیے مقرر کیا گیا تھا تاہم برلن کے روزنامہ 'ٹاگس اشپیگل‘ نے وزارت دفاع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اب یہ ہدف سال 2022ء کے وسط تک کے لیے آگے بڑھا دیا گیا ہے۔ جرمن وزارت دفاع نے اس اخبار کو بتایا، ''صنعت کی محدود پیداواری صلاحیت کے باعث طے شدہ وقت پر اسے پورا کرنا ممکن نہیں۔‘‘
جرمن وفاقی پارلیمان کی ایک انکوائری رپورٹ کے مطابق کُل 183,000 میں سے 160,000 فوجیوں کو 'ہیوی کمبیٹ بوٹ‘ کا پہلا جوڑا مل چکا ہے، تاہم انہیں دوسرا جوڑا ابھی تک نہیں ملا۔ صرف 31,000 فوجیوں کو ہی 'لائٹ کمبیٹ بوٹ‘ فراہم کیے گئے ہیں۔
جرمن فوجی اب تک زیر استعمال 'آل سیزن بوٹ‘ کی کوالٹی اور ان کے غیر آرام دہ ہونے کی شکایت کر چکے ہیں۔ کچھ فوجیوں نے اسی باعث خود سے ہی بوٹ خریدے، جو ہیں تو خلاف ضابطہ مگر اکثر اس کی اجازت دے دی جاتی ہے۔
نئے فوجی بوٹوں کے لیے اتنے طویل انتظار کو جرمنی کے کمشنر برائے مسلح افواج ہانس پیٹرز بارٹلز اپنی حالیہ رپورٹ میں تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔
پہلی عالمی جنگ کا خاموش میدانِ جنگ
بیلجیم کی عوام نے دو لاکھ یورو جمع کر کے زمین میں مدفون قلعہ نما خندقیں تلاش کی ہیں۔ یہ قلعہ بند خندقیں پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمن فوجیوں نے بنائی تھی۔ ان میں سے ایک سو ہلاک شدہ جرمن فوجیوں کی باقیات بھی ملی ہیں۔
تصویر: DW/M. Hallam
چلو! چلو پہاڑ کو کھودیں
بیلجیم کے ماہر آثارِ قدیمہ سائمن وردیغم کو اس کا یقین تھا کہ ویٹشیٹے کا مقام جرمن فوج کا مضبوط گڑھ تھا اور یہیں وہ قدیمی باقیات دقن تھیں جنہیں بعد ازاں ’پہلی عالمی جنگ کا پومپئی‘ قرار دیا گیا۔ ایک ہاؤسنگ اسکیم کی کھدائی کے دوران قدیمی قلعے کے نقوش دستیاب ہوئے اور عوامی حمایت سے مزید کھدائی کی گئی۔
تصویر: DW/M. Hallam
قدیمی اشیاء کا مرکز اور ہزاروں باقیات
کھدائی کرنے والوں کو ’ڈِگ ہِل 80 ٹیم‘ قرار دیا گیا۔ اس کے لیے عام لوگوں نے چندہ جمع کیا۔ کام کرنے والوں میں کئی بغیر کسی معاوضے کے شریک ہوئے۔ ان افراد نے توقع کے مطابق ایک بیش قیمت مقام کو تلاش کر لیا جہاں ہزاروں اوزار اور ہتھیار دستیاب ہوئے۔
تصویر: DW/M. Hallam
یہاں فوجیوں نے کھدائی سن 1914 میں کی
ویٹشیٹے کا مقام بیلجیم کے اِپرس شہر کے قریب ہے اور یہ فلانڈرز صوبے کا حصہ ہیں۔ یہ بیلجیم کے شمالی ساحلی پٹی کا اندرونی علاقہ ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران اِپرس کا شہر برطانوی فوج کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ وہ انگلش چینل سے جرمن فوج کو دور رکھنا چاہتے تھے۔ اس باعث جرمن فوج کی چڑھائی کو روکنا تھا۔ ویٹشیٹے کے مقام پر جرمن فوجیوں کو روک دیا گیا اور پھر انہوں نے قلعہ نما خندقیں کھودیں۔
تصویر: DW/M. Hallam
عسکری نقطہ نظر سے اہم
اِپرس شہر پر برطانیہ کی توجہ تھی تو ویٹشیٹے کی پہاڑی جرمن فوج کی نگاہ میں اہم تھی اور اس بلند جگہ کو ’ہوہے 80 ‘ یا ’ہِل 80‘ کا نام دیا گیا۔ یہ سطح سمندر سے تقریباً اناسی میٹر بلند ہے۔ اس پہاڑی سے جرمن کمانڈر اِپرس شہر میں ہونے والی فوجی سرگرمیوں پر واضح طور پر نگاہ رکھنے کی پوزیشن میں تھے۔
تصویر: DW/M. Hallam
گولہ باری سے ویٹشیٹے تباہ ہو گیا
پہلی عالمی جنگ کے تنازعے کے دوران گولہ باری سے ویٹشیٹے کا گاؤں ملیا میٹ ہو کر رہ گیا۔ لیکن اس جگہ پر کھودی گئی خندقوں میں تب بھی فوجی سلامت رہے۔ خندقوں کا اوپری حصہ تباہ ہونے کے باوجود نچلے حصے میں موجود جرمن فوجی اپنی زندگیاں بچانے میں کامیاب رہے تھے۔
تصویر: DW/M. Hallam
فوجیوں کی باقیات اور ایک سو نعشیں
’ڈِگ ہِل 80 ٹیم‘ کو کھدائی کے دوران قطعی لاعلم تھی کہ ان قلعہ نما خندقوں میں سے کیا برآمد ہو گا۔ ان خندقوں میں فوجیوں کے زیر استعمال چمڑے کی پیٹیاں، ایک سپاہی کا ہیلمٹ ابتدا میں دستیاب ہوا۔ اندازہ لگایا گیا کہ جرمن فوجیوں کو ابتدائی ایام میں پہلی عالمی جنگ کی شدت کا احساس نہیں تھا۔ وہ اتنے متحرک بھی نہیں تھے کہ اپنے فوجیوں کی نعشیں واپس پہنچا سکیں۔ ایک سو مردہ فوجیوں کی باقیات دستیاب ہوئیں۔
تصویر: DW/M. Hallam
’خیموں میں مسلسل رہنا کوئی خوشی کی بات نہیں‘
مردہ فوجیوں کے احترام میں ڈوئچے ویلے نے اس کا فیصلہ کیا کہ ایسی تصاویر نہیں لی جائیں گی، جن میں نعشوں کی باقیات نظر آئیں۔ اس مقام کی بھرپور ریسرچ کے لیے ماہرین بشریات اور آثارقدیمہ نے خیمے لگا کر اپنے کام کو جاری رکھا۔ ایک سابقہ برطانوی فوجی اور کھدائی کے رضاکار ناتھن ہووارتھ کا کہنا ہے کہ لوگ ان باقیات کو دیکھ کر مضطرب ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/M. Hallam
’ اوہ! یہ چھڑی تو میری ہے‘
برطانوی فوجی ناتھن ہووارتھ نے اُس واکی ٹاکی کو اپنی چھڑی قرار دیا جو بارودی اسلحے کی دستیابی پر ماہرین اور دوسرے نگران اہلکاوں کو مطلع کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس باعث کھدائی کا عمل احتیاط کے ساتھ جاری رکھا گیا۔
تصویر: DW/M. Hallam
وقت کی ریت کا تھیلا
اس کھدائی کے دوران ایک ریت کا تھیلا بھی دستیاب ہوا، جس نے تقریباً ایک صدی تک سورج کی روشنی نہیں دیکھی تھی۔ اس ریت کے تھیلے کے محفوظ رہنے پر سبھی ماہرین کو حیرت ہوئی کہ یہ رسنے والے پانی اور کیچڑ ہو جانے والی مٹی میں محفوظ کیسے رہا۔
تصویر: DW/M. Hallam
کھدائی کرنے والوں کی بہتات
ویٹشیٹے میں ’ڈِگ ہِل 80 ٹیم‘ کا کھدائی کا مشن جمعہ تیرہ جولائی کو مکمل ہوا ہے۔ ایک ہفتہ قبل ڈوئچے ویلے کے نمائندے نے بھی اس مقام کا دورہ کیا۔ نیچے کی بہت نرم زمین کی کھدائی بھی کی گئی اور اس کا مقصد مزید کسی قدیمی شے کی تلاش تھا۔
تصویر: DW/M. Hallam
’بہت کچھ دستیاب ہوا ہے‘
ویٹشیٹے کی پہاڑی کی کھدائی کی ٹیم کئی اقوام کے رضاکاروں پر مشتمل تھی۔ ان کا تعلق بیلجیم، برطانیہ اور بہت سے دوسرے ملکوں سے تھا۔ کھدائی کے دوران فٹ بال ورلڈ کپ پر بھی بحث و تمحیص جاری رہی۔ ہر کھدائی کرنے والا کچھ نہ کچھ ڈھونڈنے میں کامیاب رہا۔
تصویر: DW/M. Hallam
چند مربع کلومیٹر اور قیمتی اشیا
قلعہ نما خندقوں کی کھدائی کا علاقہ چند کلومیٹر پر محیط ہے لیکن اس رقبے میں سے کئی قیمتی اشیا دستیاب ہوئی ہیں۔ بعض کا تعلق فرانسیسی فوجیوں سے بھی ہے۔
تصویر: DW/M. Hallam
’یہ پانی مت پییں‘
فوجی پانی پینے کے لیے تھرموس یا فلاس استعمال کرتے ہیں اور اس کھدائی میں بھی ہلاک ہونے والے فوجیوں کی بند فلاسکس ملی ہیں۔ ان کے ہلانے سے ان میں پانی کی موجودگی کا احساس بھی ہوا۔ ماہرین آثارِ قدیمہ نے ان بوتلوں کے پانی فوری طور پر ضائع کر دیا۔ ان کو بہانے پر کیے گئے سوال کا جواب دیا کہ ہر فلاسک میں پانی نہیں ہے اور بعض میں سے پٹرول بھی ملا ہے۔