1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

فوجیوں کے انخلا کے بعد جرمنی اور امریکا میں مذاکرات اہم ہیں

31 جولائی 2020

جرمن وزارت دفاع سے وابستہ ایک اعلی عہدیدار کا کہنا ہے کہ جرمنی سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد بھی برلن کو چاہیے کہ وہ امریکا کے ساتھ "قابل اعتماد بات چيت" جاری رکھے۔

US-Militärübung in Deutschland
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache

جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ امریکا نے جرمنی سے فوجیوں کے انخلا کا جو منصوبہ پیش کیا ہے اس پر عمل درآمد کے باوجود بھی جرمنی اور واشنگٹن کے درمیان برابری کی سطح پر بات چیت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں جرمن وزارت دفاع سے وابستہ اعلی عہدیدار تھامس سلبرہارن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں اعلی سطح پر قابل اعتماد بات چیت جاری رکھنی چاہیے۔ عشروں سے امریکی فوجیوں نے جرمنی اور یورپ میں کافی اچھا کام کیا ہے۔"

سلبر ہارن کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا کو بھی اس بات کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا جرمنی سے فوجیوں کے انخلا اور پھر یورپ کے دیگر مقامات پر تعیناتی کے پیچھے اس کی واضح حکمت عملی کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''صرف جرمنی میں ہی نہیں بلکہ پورے یورپ میں امریکی فوجیوں کو دوبارہ ایڈجسٹ کرنے کی دفاعی حکمت عملی کے طریقہ کار سے متعلق جو سوالات ہیں ان کی وضاحت بہت ضروری ہے۔'' 

امریکا نے اسی ہفتے جرمنی سے 11 ہزار 900 فوجیوں کو نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ اس وقت جرمنی میں 36 ہزار امریکی فوجی ہیں اور اس پر عمل درآمد سے ان کی تعداد صرف 24 ہزار رہ جائیگی۔ اس میں سے کچھ فوجیوں کو اٹلی میں تعینات کیا جائیگا۔ لیکن ان تبدیلیوں میں سب سے اہم  فیصلہ 'یو ایس یورپیئن کمانڈ ہیڈ کوارٹر' اور 'اسپیشل آپریشن کمانڈ یورپ' جو اب تک جرمنی کے شہر اسٹٹ گارٹ میں ہے، بیلجیئم منتقل کرنے کا ہے۔ بعض فوجیوں کو پولینڈ اور بالٹک ریاستوں میں بھی تعینات کیا جا سکتا ہے۔ سرد جنگ کے بعد سے اندرون جرمنی فوجیوں کی یہ اب تک کی سب سے بڑی ترتیب نو ہے۔

جرمن وزارت دفاع میں اعلی عہدے پر فائز افسر تھامس سلبرہارن کہتے ہیں کہ ''جرمنی کو صرف فوجیوں کے انخلا پر ہی تشویش نہیں بلکہ اس کی وجوہات پر بھی ہے۔ ہم اس دلیل کو بھی سمجھتے ہیں کہ یورپیئن اور خاص طور پر جرمنی کو یورپ میں سکیورٹی کی ذمہ داریوں کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم پہلے سے ہی بہت کچھ کر بھی تو رہے ہیں۔''

میونخ سکیورٹی کانفرنس، عالمی رہنماؤں کی جرمنی آمد

01:17

This browser does not support the video element.

امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کا کہنا ہے کہ فوجیوں کے انخلا اور دوسرے مقامات پر تعیناتی میں دس ارب ڈالر سے کم خرچ آئیگا اور یہ روس کے خلاف امریکی اسٹریٹیجی پر نظرثانی کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم مشرق میں سرحدی علاقوں کا رخ کر رہے ہیں جہاں ہمارے نئے اتحادی موجود ہیں۔''

مارک ایسپر کا کہنا تھا، ”یہ تبدیلیاں بلاشبہ روس کے خلاف امریکا اور نیٹو کی استعداد کار کو بڑھانے کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہے''۔انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد نیٹو کو مضبوط بنانا، اتحادیوں کو یقین دلانا اور امریکی حکمت عملی میں لچک کو بہتر بنانا ہے۔

اس امریکی فیصلے پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جرمنی سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا روس خیرمقدم کریگا۔ لیکن تھامس سلبرہارن اس سے متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''یہ نیٹو کی جنوب اور مشرق کی جانب مائل ہونے کی ایک تبدیلی ہے۔ سن 1990 تک جرمنی کی مشرقی سرحدوں پر امریکی فوجیوں کی تعیناتی معقول بات تھی۔ لیکن اب نیٹو میں کافی توسیع ہوئی ہے اور اس کی حدود مشرق کی جانب پھیلی ہوئی ہیں۔''

اس ماہ کے اوائل میں پنٹاگون نے کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جرمنی سے 9500 فوجیوں کو واپس بلانے کے منصوبے کو منظوری دے دی ہے۔ تاہم بدھ 29 جولائی کو امریکی وزیر دفاع ایسپر نے واضح تعداد کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 11900 فوجیوں کو جرمنی سے واپس بلایا جائیگا۔ اس منصوبے کے تحت امریکا اپنے 6400 فوجیوں کو جرمنی سے واپس بلائے گا اور 5400 کو یورپ کے دیگر ملکوں میں تعینات کرے گا۔ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق اب تقریباً 24000 امریکی فوجی ہی جرمنی میں رہ جائیں گے۔

ص ز/ ج ا (ڈی ڈبلیو) 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں