فوجی اسلحہ بندی سے متعلق ایشیائی ملکوں کی ترجیحات
16 فروری 2012
سنگا پور میں یہ بین الاقوامی تجارتی نمائش اس روز منعقد کی گئی جب دوسری عالمی جنگ کے دوران جنوب مشرقی ایشیا میں جاپانی فوجی دستوں کی پیش قدمی کے دور میں اس علاقے پر جاپانی قبضے کے قریب 70 برس پورے ہو گئے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سے جاپان ایشیا کی اکثر ریاستوں کا ایک اہم اتحادی بن چکا ہے۔ جاپان کے برعکس اگر بہت سے ملک آج کسی ایشیائی ریاست کی طرف قدرے بے چینی سے دیکھتے ہیں تو وہ چین ہے۔
اسی لیے آج ایشیائی ملکوں میں دفاعی شعبوں کے لیے رکھی گئی رقوم کی مالیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ جنگی طیاروں، جدید ہتھیاروں اور زمینی اور فضائی اسلحے کی خریداری کا رجحان بھی اتنا زیادہ ہو چکا ہے، جتنا پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔
سنگا پور میں منعقد ہونے والے ایئر شو کے دوران جدید ترین جنگی ہیلی کاپٹروں، لڑاکا طیاروں اور مال بردار ہوائی جہازوں کی نمائش بھی کی گئی۔ یہی نہیں سنگا پور ایئر شو میں جاسوسی کے لیے استعمال ہونے والے انتہائی جدید عسکری آلات، میزائل سسٹم اور ریڈار بھی نمائش کے لیے رکھے گئے تھے۔
سنگا پور سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس بین الاقوامی نمائش میں اس رجحان میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملا کہ اب بہت سے ملک روایتی طور پر اپنی عسکری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ٹینک اور توپیں خریدنے کوترجیح نہیں دیتے بلکہ وہ نئے سے نئے لڑاکا طیاروں اور بحری نگرانی کے لیے استعمال ہونے والے ہوائی جہاز خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس رجحان کا پس منظر یہ ہے کہ ایشیا میں مجموعی طور پر مختلف ملکوں کے چین کے ساتھ پائے جانے والے اختلافات کے بعد دو بڑے علاقائی تنازعے پاکستان اور بھارت اور شمالی اور جنوبی کوریا کے مابین پائے جانے والے تنازعات ہیں۔
لیکن اگر ان بڑے تنازعات سے ہٹ کر دیکھا جائے تو قریب سبھی ایشیائی ملکوں کی کوشش ہے کہ انہیں ان بحری علاقوں میں زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہونا چاہیے، جن کی ملکیت متنازعہ ہے۔ اس کی بہترین مثال بحیرہ جنوبی چین کا علاقائی تنازعہ ہے۔ اس تنازعے میں ایک طرف اگر چین ہے تو دوسری طرف کئی دیگر مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیائی ملک جو اس سمندری علاقے پر اپنی ملکیت کے دعوے کرتے ہیں۔
براعظم ایشیا، خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیا میں اس وقت اسلحہ بندی پر کتنے وسائل خرچ کیے جا رہے ہیں، اس کا اندازہ دفاعی امور کے جریدے Jane's Defence کے شائع کردہ تازہ اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس جریدے کے مطابق مشرقی ایشیائی ملک اس سال صرف فوجی طیاروں کی خریداری پر 15.9 بلین ڈالر خرچ کریں گے لیکن سن 2015 تک انہی رقوم کی سالانہ مالیت 24.3 بلین ڈالر ہو جائے گی۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک