1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوجی ساز و سامان کی فروخت، امریکہ 46 بلین ڈالر سے زائد کمائے گا

11 جون 2011

امریکی حکام کے مطابق رواں برس امریکہ دنیا بھر میں فوجی ساز وسامان کی فروخت کے ذریعے 46 اعشاریہ ایک بلین ڈالر کمائے گا۔ اس کی ایک وجہ افغانستان میں جاری جنگ بھی ہے۔

امریکی حکام کے مطابق مجموعی طور پر غیر ملکی افواج کے لیے اسلحے کی فروخت اور عسکری خدمات کے شعبے سے 79 فیصد جبکہ یو ایس ایڈ سے بقیہ 21 فیصد رقم حاصل کی جائےگی۔ یہ زرمبادلہ سن 2010 کے مقابلے میں دوگنا بنتا ہے۔ سن 2000ء میں امریکی فوجی آلات کے ذریعے امریکہ کو دس بلین ڈالر کی آمدنی ہوتی تھی، جو سن 2005ء تک تین گنا بڑھ کر 30 بلین تک پہنچ گئی۔ امریکہ کی دفاع اور سلامتی کے شعبے میں تعاون کی ایجنسی کے ڈائریکٹر وائس ایڈمرل ویلیئم لینڈے کے مطابق، ’’سن 2005 تا سن 2010ء ہم نے غیر ملکی عسکری فروخت کے عمل کے ذریعے 96 بلین ڈالر کے مساوی آلات اور دیگر سامان اپنے پارٹنر ممالک کو مہیا کیا ہے۔‘‘

وائس ایڈمرل لینڈے کے مطابق دس برس قبل خریدار ممالک کم قیمت کے حامل عسکری آلات خریدنے میں دلچسپی لیتے تھے اور اس کے لیے وہ ترسیل میں تاخیر بھی بآسانی برداشت کر لیتے تھے تاہم افغانستان میں جنگ کی وجہ سے متعدد مسلح افواج تیز رفتار خریداری چاہتے ہیں، تاکہ فوری طور پر انہیں مطلوبہ اسلحہ دستیاب ہو سکے۔ لینڈے کے بقول اسی وجہ سے امریکی دفاعی ساز وسامان کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

افغان جنگ کے بعد سے اسلحے کی فروخت میں تیزی آئی ہےتصویر: AP

وائس ایڈمرل لینڈے کے مطابق لیبیا پر فضائی حملے کرنے والی مسلح افواج اپنے اسلحے کے ذخیرے کو برقرار رکھنے کے لیے امریکی دفاعی ساز وسامان اور تعاون کے ادارے سے رابطہ رکھتے ہیں۔ قذافی حکومت کے خلاف فضائی کارروائی کے مشن میں بیلجیئم، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، اٹلی، ناروے اور برطانیہ شامل ہیں۔

برآمدات میں اور طلب میں اضافے کی وجہ سے امریکی ادارہ برائے دفاعی تعاون اسلحے کی تیز رفتار ترسیل کے عمل پر نظر ثانی بھی کر رہا ہے۔ وائس ایڈمرل لینڈے کے بقول اس وقت امریکی اسلحے کی ترسیل کے حوالے سے ان کے پاس کوئی 13 ہزار آرڈرز ہیں، جن کے ذریعے دنیا کے 165 ممالک سے 327 بلین ڈالر کی تجارت کی جائے گی۔

رپورٹ: عاطف توقیر

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں