فوجی عدالتوں کی مدت: سیاسی مشاورت بھی، ناقدین کی مخالفت بھی
عبدالستار، اسلام آباد
1 اپریل 2019
پاکستان میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا معاملہ ایک بار پھر ملکی حکومت کے سامنے ہے۔ جہاں کئی سیاسی جماعتیں اس مسئلے پر مشاورت میں مصروف ہیں، وہیں بہت سے ناقدین ان کی مدت میں ایک بار پھر توسیع کے خلاف بھی ہیں۔
اشتہار
دسمبر دو ہزار چودہ میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد سیاسی جماعتوں کی حمایت سے دو ہزار پندرہ میں فوجی عدالتوں کو دو برس کے لیے قائم کیا گیا تھا تاکہ وہ دہشت گردی میں ملوث ملزمان کے خلاف مقدمات کی سماعت کر سکیں۔ ان کی مدت میں گزشتہ توسیع دوہزار سترہ میں دو سال کے لیے کی گئی تھی، جو اس سال تیس مارچ کو ختم ہو چکی ہے۔ وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے حال ہی میں قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ فوجی عدالتوں کو مجموعی طور پر سات سو سترہ مقدمات بھیجے گئے تھے، جن میں سے ایک سو پچاسی مقدمات کے فیصلے تیس مارچ تک ہو چکے تھے۔
ملکی سیاسی جماعتوں نے اس مسئلے پر مشاورت شروع کر دی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما سینیٹر نزہت صادق نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہماری پارٹی کا آج ایک اجلاس ہوا، جس میں یہ مسئلہ بھی زیر بحث آیا۔ مسلم لیگ ن کا موقف یہ ہے کہ حالات بہتر ہو گئے ہیں، اس لیے حکومت اب بتائے کہ اسے ان عدالتوں کی اب کیا ضرورت ہے۔ ہم حکومتی نکات کو پارٹی کے سامنے رکھیں گے اور پھر اس پر اپنا فیصلہ کریں گے۔ ابھی تک تو حکومت نے ہم سے اس سلسلے میں کوئی رابطہ نہیں کیا۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی نے ماضی میں فوجی عدالتوں کی حمایت کی تھی۔ تاہم اس کے ایک مرکزی رہنما رضا ربانی نے تب ’آنسوؤں کے ساتھ‘ اس فیصلے کو قبول کیا تھا۔ پی پی پی کی پوزیشن فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے حوالے سے ابھی تک غیر واضح ہے۔ پارٹی کے ایک مرکزی رہنما اور سابق وزیر مملکت برائے پیداوار آیت اللہ درانی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس مسئلے پر غیر رسمی بات چیت ہو رہی ہے۔ تاہم ہماری پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کا اجلاس ایک دو دن میں ہونے والا ہے، جس میں اس پر باقاعدہ بحث ہو گی۔ اس کے علاوہ ہماری پارٹی کے ارکانِ قومی اسمبلی اُس بریفنگ میں بھی شرکت کریں گے، جو آرمی چیف کی طرف سے دی جائے گی۔ ہم معروضی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔ ابھی ہم نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ ہم اس ممکنہ توسیع کی حمایت کریں گے یا مخالفت۔‘‘
2018: دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک
سن 2018 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 64 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے شکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے واقعات میں 4271 افراد ہلاک ہوئے جب کہ سن 2016 میں یہ تعداد قریب 10 ہزار تھی۔ داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں 52 فیصد کمی ہوئی۔ اس کے باوجود عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل چودہ برس سے سر فہرست رہا۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس سے کم ہو کر 9.75 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے تاہم اس برس افغانستان میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد عراق سے بھی زیادہ رہی۔ گزشتہ برس افغانستان میں قریب بارہ سو دہشت گردانہ حملوں میں 4653 افراد ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.39 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 8.66 کے ساتھ نائجیریا اس تیسرے نمبر پر ہے۔ سن 2017 کے دوران نائجیریا میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے کچھ زائد رہی جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں سولہ فیصد کم ہے۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
سن 2016 کی نسبت گزشتہ برس شام میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد اڑتالیس فیصد کم رہی۔ اس کے باوجود خانہ جنگی کا شکار یہ ملک قریب گیارہ سو ہلاکتوں کے ساتھ دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام کا اسکور 8.6 سے کم ہو کر اس رپورٹ میں 8.3 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پانچویں نمبر پر پاکستان ہے جہاں گزشتہ برس 576 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے آٹھ سو انسان ہلاک ہوئے۔ 2016ء کے مقابلے میں گزشتہ برس تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 17 فیصد کم رہی۔ داعش خراسان کے حملوں میں 50 فیصد جب کہ لشکر جھنگوی کے حملوں کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی امسالہ فہرست میں صومالیہ چھٹے نمبر پر رہا، گزشتہ انڈیکس میں صومالیہ ساتویں نمبر پر تھا۔ اس ملک میں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ صومالیہ میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد میں 93 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں صومالیہ کا اسکور 7.6 سے بڑھ کر 8.02 ہو گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
بھارت بھی اس فہرست میں آٹھ کی بجائے ساتویں نمبر پر آ گیا۔ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا جب کہ ہلاکتوں کی تعداد میں بھی بارہ فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 384 بھارتی شہری دہشت گردی کا نشانہ بن کر ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ بھارت کا اسکور 7.57 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ تاہم سن 2016 کے مقابلے میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 75 فیصد کم رہی۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 141 واقعات میں 378 افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔ گزشتہ انڈیکس میں یمن چھٹے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/F. Salman
مصر
مصر ایک مرتبہ پھر دہشت گردی سے متاثرہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہو گیا۔ 169 دہشت گردانہ واقعات میں 655 افراد ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر حملے داعش کے گروہ نے کیے۔ مصر کا جی ٹی آئی اسکور 7.35 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Abdallah
فلپائن
دہشت گردی کے 486 واقعات میں 326 انسانوں کی ہلاکتوں کے ساتھ فلپائن بھی ٹاپ ٹین میں شامل کیا گیا۔ فلپائن کا انڈیکس اسکور 7.2 رہا۔ فلپائن میں پینتیس فیصد حملوں کی ذمہ داری کمیونسٹ ’نیو پیپلز آرمی‘ نے قبول کی جب کہ داعش کے ابوسیاف گروپ کے حملوں میں بھی اٹھارہ فیصد اضافہ ہوا۔
تصویر: Reuters/E. de Castro
ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو
گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں 7.05 کے اسکور کے ساتھ گیارہویں نمبر جمہوری جمہوریہ کانگو ہے۔
تصویر: DW/J. Kanyunyu
ترکی
ترکی گزشتہ انڈیکس میں پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ اس برس ترکی میں دہشت گردی کے واقعات اور ان کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کم ہوئی۔ موجودہ انڈیکس میں ترکی کا اسکور 7.03 رہا۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق 2016ء میں لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دہشت گردی کی اکثر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ گزشتہ انڈیکس میں لیبیا 7.2 کے اسکور کے ساتھ دسویں جب کہ تازہ انڈیکس میں 6.99 اسکور کے ساتھ تیرہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/H. Amara
13 تصاویر1 | 13
اسی دوران وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی پارٹی سمجھتی ہے کہ ملک کو فوجی عدالتوں کی ابھی ضرورت ہے۔ تاہم موجودہ حکومت یہ کام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے سے کرے گی۔ دوسری طرف حکومت کی ایک اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے ابھی تک اس سے اس سلسلے میں کوئی مشاورت نہیں کی۔ پارٹی کے ترجمان امین الحق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم نے ماضی میں بھی فوجی عدالتوں کی حمایت کی تھی اور اب بھی ہم پی ٹی آئی کی طرف سے رابطے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جیسے ہی وہ اس بارے میں ہم سے بات کریں گے، ہم اسے اپنی رابطہ کمیٹی کے پاس لے کر جائیں گے اور تبھی اس بارے میں کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔‘‘
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک نے گیند حزب اختلاف کی جماعتوں کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔ فوجی عدالتوں کی مدت میں ممکنہ توسیع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم اپوزیشن کا حصہ ہیں۔ حزب اختلاف جو بھی فیصلہ کرے گی، وہی ہمارا فیصلہ بھی ہو گا۔ اس سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن کا ایک اجلاس ہونا تھا، لیکن وہ ہوا نہیں۔ جب یہ اجلاس ہو گا، اسی وقت صورت حال واضح ہو گی۔ تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک کثیرالجہتی پالیسی کی ضرورت ہے اور فوجی عدالتیں اس کا صرف ایک حصہ ہیں۔‘‘
سانحہء اے پی ایس پشاور: یاد آج بھی تازہ
سولہ دسمبر سن دو ہزار چودہ کا سورج غروب ہوا تو پاکستان بھر کو سوگوار اور آبدیدہ چھوڑ گیا۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان کے ہاتھوں بچوں کے قتلِ عام کی گزشتہ تین سالوں میں مذمت عالمی سطح پر کی گئی۔
تصویر: DW/F. Khan
اسکول کی دیوار، بربریت کی گواہ
طالبان کی بندوقوں سے نکلی گولیوں نے اسکول کی دیواروں کو بھی چھلنی کر دیا۔
تصویر: Reuters/F. Aziz
امدادی کارروائیاں
اسکول میں حملے کی اطلاع ملتے ہی پاکستان کی فوج نے بچوں کو محفوظ مقام پر پہنچانے کی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/K. Parvez
اپنے پیاروں کی میت اٹھانا مشکل
ایک شخص امدادی کارکن کے ساتھ بیٹے کا تابوت اٹھاتے ہوئے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔
تصویر: Reuters/K. Parvez
آنسو بھی حوصلہ بھی
آرمی پبلک اسکول حملے میں زخمی ہونے والے ایک طالبِ علم کے رشتہ دار ایک دوسرے کو تسلی دیتے رہے۔
تصویر: Reuters/F. Aziz
خود محفوظ لیکن ساتھیوں کا غم
ایک طالب علم جسے حفاظت سے باہر نکال لیا گیا تھا، اندر رہ جانے والے اپنے ساتھیوں کے لیے اشکبار تھا۔
تصویر: Reuters/K. Parvez
علی محمد خان اب نہیں آئے گا
سانحہ پشاور میں طالبان کی گولیوں کا نشانہ بننے والے علی خان کی والدہ کو قرار کیسے آئے۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
سیاہ پٹی اور سرخ گلاب
پاکستان بھر میں بچوں نے گزشتہ برس بازوؤں پر سیاہ پٹی اور ہاتھ میں سرخ گلاب تھام کر طالبان کی بربریت کا شکار ہونے والے اپنے ساتھیوں کی یاد منائی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
دنیا بھر میں احتجاج
نیپال کے دارالحکومت کھٹمندو کی ایک خاتون نے اپنے انداز میں پشاور حملے پر احتجاج کیا۔
تصویر: Reuters/Navesh Chitrakar
بھارتی بچے بھی سوگ میں شامل
بھارت کے شہر متھرا میں اسکول کے بچوں نے سانحہ پشاور میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لیے دعا کی۔
تصویر: Reuters/K. K. Arora
روشن قندیلیں
پاکستان میں سول سوسائٹی اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد آج کے دن ہر سال سانحہ پشاور میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں شمیں روشن کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/R. S. Hussain
10 تصاویر1 | 10
پاکستان میں جہاں مختلف سیاسی جماعتیں اس مسئلے پر غور کر رہی ہیں، وہیں ناقدین ان فوجی عدالتوں کی مدت میں ایک بار پھر توسیع کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں اس توسیع کے بجائے حکومت کو ملکی عدالتی نظام میں اصلاحات لانا چاہییں۔ پاکستانی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہ الدین کے خیال میں ایسی عدالتوں کا قیام اس بات کا اعتراف ہوتا ہے کہ آپ کی عدلیہ اپنی ذمہ داریاں پورا نہیں کر رہی، ’’میرے خیال میں عدالتی نظام کی اصلاح ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ لیکن حکومت نہ تو مناسب اسٹاف عدالتوں کو دے رہی ہے اور نہ ہی عدلیہ کی دیگر ضروریات پورا کر رہی ہے، جس کی وجہ سے عدالتوں میں مقدمات کا انبار لگ رہا ہے۔ میرے خیال میں ایسی عدالتوں کا قیام ہی نامناسب ہے۔ اگر ہم ان کو توسیع دینا چاہتے ہیں، تو اس کے ساتھ ہمیں عدالتی نظام کی اصلاح بھی کرنا پڑے گی اور عدلیہ کو سہولیات بھی دینا پڑیں گی۔ ورنہ فوجی عدالتوں کی توسیع پر مستقبل میں پھر ایک بار بات کی جائے گی۔‘‘
کچھ ناقدین کے خیال میں ایسی عدالتیں ہونا ہی نہیں چاہییں۔ معروف سیاست دان اور سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر کے خیال میں ان عدالتوں کے طریقہ کار پر بھی کئی سوالات ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’میں نے تو ہمیشہ سے ان عدالتوں کی مخالفت کی ہے کیونکہ متوازی نظامِ عدل قائم کرنے سے ادارے کمزور ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ اوپر سے نیچے تک عدالتی نظام کی اصلاح کرے۔ پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو منسوخ کیا ہے۔ ان عدالتوں کی منصفانہ عدالتی کارروائی، احتساب اور طریقہ کار کے حوالے سے بھی کئی سوالات پیدا ہو چکے ہیں۔‘‘
معروف تجزیہ نگار ضیاءالدین کے خیال میں اگر جی ایچ کیو سیاسی جماعتوں کو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے حوالے سے قائل کر لیتا ہے، تو وہ اس توسیع کی حمایت کر دیں گی۔ لیکن بشریٰ گوہر کے خیال میں سیاسی جماعتوں پر پہلے بھی دباؤ ڈالا گیا تھا اور اب بھی اگر ان پر ’نظر نہ آنے والی قوتوں‘ نے دباؤ ڈالا، تو وہ اس کی حمایت ہی کریں گی۔
کپتان سے وزیر اعظم تک
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images
بطور وزیراعظم حلف
ہفتہ یعنی اٹھارہ اگست کو تقریب حلف برداری میں عمران خان بطور وزیر اعظم حلف اٹھائیں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa/MAXPPP/Kyodo
کرکٹر
عمران خان پانچ اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے ہی کرکٹ میں دلچسپی تھی اور ان کا شمار پاکستان کرکٹ ٹیم کےکامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo Library
سیاست میں قدم
عمران خان نے تبدیلی اور حکومتی بدعنوانی کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ ایرپل 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ ایک کرکٹ لیجنڈ ہونے کے باوجود انہیں ابتدا میں سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary
نوجوانوں کا ’ہیرو‘
پاکستان میں ’دو پارٹیوں کی سیاست‘ کے خاتمے کے لیے جب عمران خان نے سیاسی میدان میں قد م رکھا تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں خوش آمدید کہا۔
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images
حادثہ
2013ء کے انتخابات گیارہ مئی کو منقعد ہوئے تھے۔ تاہم عمران خان سات مئی کو اس وقت ایک لفٹر سے گر کر زخمی ہو گئے تھے، جب انہیں لاہور میں ہونے والے ایک جلسے سے خطاب کے لیے اسٹیج پر لے جایا جا رہا تھا۔
تصویر: Getty Images
’امید‘
کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی تاہم عمران خان کی جماعت 27 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی تھی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان نے حکمران جماعت پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’میں اسپورٹس مین ہوں‘
2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اپنی توقعات کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ اس موقع پر جب بھی عمران خان سے پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اکثر کہتے تھےکہ انہوں نے زندگی بھر کرکٹ کھیلی ہے۔ وہ ایک اسپورٹس مین ہیں اور شکست سے گھبراتے نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters
جلسے جلوس
عمران خان نے حالیہ انتخابات سے قبل ملک بھر میں جلسے کیے۔ مبصرین کی رائے تحریک انصاف کے ان جلسوں نے حامیوں کو متحرک کرنے اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عمران خان وزیر اعظم منتخب
عمران خان کی جماعت نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف اتنے ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھی کہ وہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے بغیر حکومت قائم کر سکے۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے عمران خان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف سے تھا۔ عمران خان کو 176جبکہ شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے۔