فوج بھی بھارت سے امن چاہتی ہے، پاکستانی سفیر کا انٹرویو
3 مارچ 2015سید حسن جاوید نے یہ بات منگل تین مارچ کو جرمنی کے شہر بون میں ڈوئچے ویلے کے ایک دورے کے دوران شعبہ اردو کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہی۔ قریب دس ماہ قبل جرمنی میں پاکستان کے سفیر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے والے سید حسن جاوید کا ان کی موجودہ سفارتی حیثیت میں جرمنی کے عالمی نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کا یہ پہلا دورہ تھا۔
اس انٹرویو میں پاکستانی سفیر نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں طاقت کے ستون قرار دیے جانے والے قومی اداروں میں سے کوئی بھی ادارہ حریف ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات نہیں چاہتا۔
سید حسن جاوید کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام، حکومت، فوج اور سیاسی جماعتیں سبھی یہ چاہتے ہیں کہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے مابین اچھے دوستانہ تعلقات استوار ہوں۔
سید حسن جاوید کے مطابق جنوبی ایشیا میں کھچاؤ اور بداعتمادی کے ماحول کے خاتمے اور ہمسایہ ریاستوں کے مابین بہتر تعلقات کار سے نہ صرف پورے خطے کو بےتحاشا فائدہ ہو گا بلکہ پاکستان میں تمام سیاسی اور عوامی حلقے بھی اس امر پر متفق ہیں کہ ایسی کسی بھی مثبت پیش رفت سے خاص طور پر پاکستان کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
بھارتی سیکرٹری خارجہ سبرامنیم جےشنکر کی دو روزہ دورے پر مذاکرات کے لیے منگل کے روز اسلام آباد آمد اور دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کھچاؤ کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب میں پاکستانی سفیر کا کہنا تھا، ’’نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین ماضی میں بھی کئی مرتبہ اعتماد سازی کے لیے مذاکرات ہوئے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صورت میں عالمی برادری نے خود کو پابند بنا رکھا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ مل کر اس تنازعے کو حل کرائے۔‘‘
سید حسن جاوید کا کہنا تھا، ’’کشمیر کے تنازعے کے فریق صرف پاکستان اور بھارت ہی نہیں بلکہ خود کشمیر کے عوام بھی ہیں۔ مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر ماضی میں بھی پاکستان اور بھارت نے آپس میں باہمی قربت کی کوششیں کی ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس دیرینہ تنازعے کو حتمی طور پر حل کیے بغیر نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین مستقل بہتر تعلقات کی کوئی بھی کوشش بہرحال نامکمل رہے گی۔‘‘
برلن میں پاکستانی سفیر نے خاص طور پر ڈی ڈبلیو شعبہ اردو کے دورے کے دوران اردو سروس کے ارکان کے ساتھ مختلف امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
بعد میں انہوں نے ڈوئچے ویلے کے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لمبورگ اور پروگرام ڈائریکٹر گیرڈا موئر سے بھی ملاقات کی۔