1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوج سے کوئی جنگ نہیں، صدر زرداری

7 جنوری 2012

پاکستانی صدر نے کہا ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان کسی قسم کی کوئی محاذ آرائی جاری نہیں ہے۔ یہ بیان میمو گیٹ اسکینڈل کے تناظر میں دیا گیا ہے، جس میں مقامی میڈیا حکومت اور فوج کے درمیان تناؤ کی خبریں نشر کر رہا ہے۔

تصویر: AP

پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کی جانب سے ہفتے کے روز سامنے آنے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت، فوج یا عدلیہ کے ساتھ جنگ میں مصروف نہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ لوگوں کے خیال میں یہ ایک جھگڑا ہے جبکہ وہ اسے جمہوریت کے نمو سمجھتے ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستانی عدالت عظمیٰ میں میمو اسکینڈل کی چھان بین کے حوالے سے دی جانے والی درخواستوں کے بعد ملک کی مضبوط فوج اور سیاسی حکومت کے درمیان تناؤ میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

حکومت پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ گزشتہ برس مئی کے آغاز میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں امریکی فوج کے کمانڈوز کے ایک خفیہ آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں اس وقت متعین پاکستانی سفیر حسین حقانی نے امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کو تحریر کردہ ایک مراسلے میں پاکستان میں کسی ممکنہ فوجی بغاوت کی روک تھام کے لیے ان سے مدد طلب کی تھی۔ پاکستانی اپوزیشن اور ملکی فوج اس معاملے کی مکمل عدالتی تفتیش چاہتے ہیں جبکہ حکومت کا خیال ہے کہ اس معاملے کی تفتیش کا حق پارلیمان کی قومی سلامتی کی کمیٹی کو ہے۔

سابق پاکستانی سفیر حقانی، صدر آصف زرداری کے ہمراہتصویر: dapd

پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں صدر زرداری نے کہا، ’ہم عدلیہ کے ساتھ جنگ کی حالت میں نہیں ہیں۔ ہم فوج کے ساتھ جنگ کی حالت میں نہیں ہیں۔ کوئی جنگ نہیں ہو رہی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ جلد ہی اس معاملے کا حل نکال لیا جائے گا اور معاملہ ختم ہو جائے گا۔ صدر زرداری نے کہا کہ ان کے خیال میں ملک کا سب سے اہم اور اعلیٰ ادارہ پارلیمان ہے۔

گزشتہ برس اکتوبر میں ایک پاکستانی نژاد امریکی کاروباری شخصیت منصور اعجاز نے اس معاملے کو عوامی سطح پر پیش کر دیا تھا۔ اعجاز نے الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے حسین حقانی کے کہنے پر وہ مراسلہ امریکی صدر باراک اوباما کے قومی سلامتی کے مشیر جیمز جونز کو بھیجا تھا تا کہ وہ اسے امریکی فوج کے سربراہ تک پہنچائیں۔ پاکستانی سفیر حسین حقانی نے اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جبکہ عدالت کی جانب سے ان پر پاکستان چھوڑنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ حقانی اس معاملے میں اپنے ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں۔

دوسری جانب گزشتہ روز امریکہ کی جانب سے پاکستان سے ایک مرتبہ پھر مطالبہ کیا گیا کہ وہ سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی سے ایسا برتاؤ روا رکھیں، جس سے ان کے بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں۔ چند امریکی سینیٹرز کی جانب سے میمو گیٹ اسکینڈل کے تحقیقاتی کمیشن سے کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔

رپورٹ: عاطف توقیر

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں