سیاستدانوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافتی برادری نے ان خبروں پر تشویش کا اظہار کیا ہے جس کے مطابق حکومت فوج مخلاف مہم کو روکنے کے لیے ایک ٹاسک فورس بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اشتہار
ان تنظیموں نے ایسی کسی بھی حکومتی کوشش کی بھرپور مخالفت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ایسے اقدامات کرنے سے باز آئے۔ واضح رہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے آج اس حوالے سے ایک وضاحت دیتے ہوئے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کوئی ٹاسک فورس بنانے کا ارادہ نہیں رکھتی تاہم اس حوالے سے ایک کمیٹی بنائی جا رہی ہے۔
تاہم ناقدین نے خواجہ آصف کی وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت فوری طور پر اس حوالے سے وضاحت کرے۔
انگریزی روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے ایک سمری پہلے ہی تیار کر لی گئی ہے اور اسے منظوری کے لیے متعلقہ اداروں کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔
ایک حکومتی اہلکار نے اخبار کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ فی الحال یہ ایک تجویز ہے۔ اخبار کے مطابق اس ٹاسک فورس میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اورنادرا کے افسران شامل ہوں گے۔ مجوزہ ٹاسک فورس، جس کی معاونت پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کریں گے، وہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے حوالے سے سفارشات تیار کرے گی۔
یہ تجویز ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکومت پاکستان تحریک انصاف پر الزام لگا رہی ہے کہ وہ ملک کی فوج کے خلاف ایسی مہم چلا رہی ہے جس کا مقصد اس ادارے کو بد نام کرنا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان نے مبینہ طور پرحالیہ دنوں میں نہ صرف سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف مختلف ٹرینڈز چلائے ہیں بلکہ دنیا کے کچھ دارالحکومتوں میں بھی سیاسی مظاہروں کے دوران فوج کے خلاف مبینہ طور پر دشنام طرازی کی گئی ہے۔
فوج کے خلاف تنقید کو روکنے کی کوششیں
پاکستان مسلم لیگ نون کی گزشتہ حکومت کے دوران بھی پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ نافذ کیا گیا تھا، جس کے حوالے سے ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کے لیے بنایا گیا تاکہ طاقت ور حلقوں پر تنقید نہ کی جا سکے۔ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے بھی میڈیا اور سوشل میڈیا کے حوالے سے قوانین لانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس برس فروری میں موجودہ حکومت نے بھی کوشش کی کہ وہ ایسے قوانین لے کر آئے جس کے تحت عدلیہ اور فوج پر ہونے والی بے جا تنقید کو روکا جا سکے۔ تاہم ان کوششوں کے خلاف جب مختلف حلقوں کی طرف سے ردعمل آیا، تو حکومت نے اپنی کوششوں کو ترک کردیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں فوج کا ہمیشہ سے ایک کلیدی کردار رہا ہے، جس نے ملک کی تقریباً 75 سالہ تاریخ میں 25 سال سے زائد عرصہ براہ راست حکومت کی ہے جبکہ مختلف جمہوری حکومتوں کے ادوار کے دوران بھی فوج پر یہ الزام آیا ہے کہ وہ بالواسطہ طور پر حکومت چلاتی رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کئی مرتبہ اس بات کا اشارہ دیا کہ 'اصل اقتدار تو کسی اور کے پاس تھا۔‘
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ بجائے اس کے کہ حکومت کوئی کمیٹی بنائے، فوج کو اس کے آئینی اختیارات تک محدود کر دینا چاہیے۔ نیشنل پارٹی پنجاب کے صدر ایوب ملک کا کہنا ہے کہ کسی کمیٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب تک فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی رہے گی، لوگ تنقید کرتے رہیں گے۔ فوج نے 2018 ء کے الیکشن میں مداخلت کی اور سیاسی انجینئرنگ میں حصہ لیا۔ اگراسٹیبلشمنٹچاہتی ہے کہ اس پر تنقید نہ ہو تو اسے اپنی آئینی حدود میں رہنا چاہیے۔‘‘
شادیانے بجانے کی ضرورت نہیں
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نون اور جمعیت علماء اسلام ماضی میں فوج کی بہت بڑی ناقد رہی ہیں۔ ان جماعتوں نے ہمیشہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت اس طرح کے اقدامات کرکے اپنے قول وفعل میں تضاد ظاہر کر رہی ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے شریک چیئرمین اسد بٹ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس طرح کی کوئی بھی کمیٹی یا ٹاسک فورس سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنان کے لیے بہت خطرناک ہے۔ ماضی میں سیاستدانوں نے بہت سارے ایسے قوانین بنائے جو بعد میں ان کے گلے کی ہڈی بنے۔‘‘
اسد بٹ کا خیال ہے کہ بظاہر لگتا ہے کہ اس ٹاسک فورس یا کمیٹی کو تحریک انصاف کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ '' لیکن اس پر کسی بھی سیاسی جماعت کو شادیانے بجانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آج اگر یہ کمیٹی پی ٹی ائی کے خلاف استعمال ہو گی تو کل نون لیگ کے خلاف بھی استعمال ہو گی۔‘‘
پاکستان میں اختلاف رائے رکھنے کی بنیاد پر کئی صحافیوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور کچھ صحافیوں کو تو صرف اپنی نوکری سے اس لیے ہاتھ دھونا پڑا کیونکہ انہوں نے سوشل میڈیا پر طاقتور حلقوں پر تنقید کردی تھی۔ اس کے علاوہ صحافیوں کو مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکریٹری جنرل اور معروف صحافی ناصر زیدی کا کہنا ہے ہے کہ انہیں اس کمیٹی کے حوالے سے آنے والی خبروں پر بہت تشویش ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''خواجہ آصف کی وضاحت ناکافی ہے۔ حکومت اس پر واضح وضاحت دے۔ ملک میں پہلے سے قوانین موجود ہیں اور ان قوانین کو استعمال کیا جائے۔‘‘
ناصر زیدی کے مطابق انہیں خدشہ ہے کہ ان قوانین کو سیاسی کارکنان کے علاوہ صحافیوں کے خلاف بھی استعمال کیا جائے گا۔
گزشتہ کچھ برسوں میں جب بھی اس طرح کی کوئی کمیٹی یا کوئی قانون سامنے آیا ہے، تو سول سوسائٹی اور مختلف تنظیموں کی طرف سے اس کی بھرپور مخالفت ہوئی ہے۔
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
پاکستانی تاریخ میں کئی بحران سامنے آتے رہے۔ کبھی فوج براہ راست اقتدار میں رہی اور کبھی بلواسطہ۔ کئی منتخب حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کر پائیں۔ پاکستان کی پیچیدہ سیاسی تاریخ کے کچھ اہم واقعات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1947 – آزادی اور پہلا جمہوری دور
برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو ملکی وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک برس بعد ہی انتقال کر گئے۔
تصویر: AP
1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک تھے جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس بحرانی صورت حال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
تصویر: OFF/AFP/Getty Images
1958 – پہلا فوجی دور
پاکستان کا پہلا آئین سن 1956 میں متعارف کرایا گیا تاہم ملکی صدر اسکندر مرزا نے دو سال بعد 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لا لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے برطرف کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ یوں پہلی مرتبہ پاکستان میں اقتدار براہ راست فوج کے پاس چلا گیا۔
تصویر: imago stock&people
1965
ایوب خان نے پاکستان میں امریکا جیسا صدارتی نظام متعارف کرایا اور سن 1965 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار بن گئے اور ان کا مقابلہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے ہوا۔ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے لیکن ایوب خان ’الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ملکی صدر بن گئے۔
تصویر: imago stock&people
1969
انتخابات میں فاطمہ جناح کی متنازعہ شکست اور بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1970
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی عوامی جماعت نے قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت 81 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
تصویر: Journey/M. Alam
1971
یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت بھی اس تنازعے میں کود پڑا اور جنگ کے بعد پاکستان تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی جگہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
تصویر: Journey/R. Talukder
1972 – دوسرا جمہوری دور
مارشل لا ختم کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اسی برس ملکی جوہری پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
1973
پاکستان میں نیا ملکی آئین تشکیل پایا جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائی گئی۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا تشکیل دی گئی اور حکومت کی سربراہی وزیر اعظم کے عہدے کو دی گئی۔ بھٹو صدر کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ سن 1976 میں بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو ملکی فوج کا سربراہ مقرر کیا جو بعد میں ان کے لیے مصیبت بن گئے۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1977 – دوسرا فوجی دور
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ بھٹو کے خلا ف انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1978
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ ملکی صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ سن 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’قتل کی سازش‘ کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دتیے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ ضیا الحق نے اسی برس ملک میں حدود آرڈیننس جیسے متنازعہ قوانین متعارف کرائے اور ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی اختیار کی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1985
ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ مارشل لا ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیا کو آٹھ سال کی مدت کے لیے صدر جب کہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل جنرل ضیا نے اپنی ’اسلامائزیشن‘ پالیسی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ 95 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1988
بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ضیا الحق نے آئینی شق اٹھاون دو بی کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ انہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پھر سے وعدہ بھی کیا تاہم اسی برس سترہ اگست کے روز جہاز کے حادثے میں ضیا الحق اور دیگر اکتیس افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: PHILIPPE BOUCHON/AFP/Getty Images
1990
پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ضیا دور میں سیاست میں اترنے والے نواز شریف ملکی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اگلے برس اسمبلی نے ’شریعہ بل‘ منظور کیا اور اسلامی قوانین ملکی عدالتی نظام کا حصہ بنا دیے گئے۔
تصویر: imago/UPI Photo
1993
صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بدعنوان قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا۔ خود انہوں نے بھی بعد ازاں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے فاروق لغاری ملکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Frazza
1996
صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک دہائی کے اندر پاکستان میں چوتھی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1998
پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں واقع چاغی کے پہاڑوں میں جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے چند روز قبل بھارت نے بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایٹمی تجربوں کے بعد عالمی برادری نے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
1999 – فوجی اقتدار کا تیسرا دور
کارگل جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے جنرل ضیا الدین عباسی کو ملکی فوج کا سربراہ تعینات کر دیا۔ تاہم فوج نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔
تصویر: SAEED KHAN/AFP/Getty Images
2000
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کر دی۔ اسی برس شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف سن 2001 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
2002
جنرل پرویز مشرف ایک ریفرنڈم کے بعد مزید پانچ برس کے لیے ملکی صدر بن گئے۔ اسی برس عام انتخابات بھی ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف نے بنائی تھی۔ ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا تاہم دو برس بعد ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے ترامیم کے بعد سن 1973 کا ملکی آئین بحال کر دیا۔
تصویر: AP
2007
جنرل مشرف نے ملکی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تاہم بعد ازاں جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ دریں اثنا ملکی پارلیمان نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔
تصویر: AP
2007
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو ایک مفاہمت کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بعد ازاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
2008– چوتھا جمہوری دور
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ یوسف رضا گیلانی ملکی وزیر اعظم بنے جب کہ بنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ملکی صدر بننے کو ترجیح دی۔ الزامات اور تنازعات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Getty Images
2013
اس برس کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور ملکی آئین میں ترامیم کے باعث نواز شریف تیسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی سندھ جب کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تصویر: AFP/Getty Images
2017
تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے فوج پر الزامات عائد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
2018
پاکستان میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کو امید ہے کہ اس مرتبہ ان کی جماعت جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو عملی سیاست میں اتار چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہو گا۔