میڈیا رپورٹوں کے مطابق گزشتہ برس وفاقی جرمن فوج میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات میں ماضی کے مقابلے میں 80 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
اشتہار
جرمنی کے فُنکے میڈیا گروپ کے مطابق گزشتہ برس جرمن مسلح افواج میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے 234 واقعات رپورٹ ہوئے۔ وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات میں اضافہ دراصل ان واقعات کے سدباب کی کوششوں اور ایسے مشتبہ حملوں کو رپورٹ کرنے میں اضافے سے مربوط ہے۔
وفاقی جرمن فوج کے حکام کے مطابق گزشتہ برس جنسی زیادتی یا جنسی زیادتی کی کوشش کے 14 واقعات رپورٹ ہوئے، جو سن 2016 کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تھے۔ سن 2016ء میں ایسے فقط پانچ واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ ہفتے کے روز فُنکے میڈیا گروپ کے تحت شائع ہونے والے مختلف اخبارات میں یہ رپورٹ جاری کی گئی ہے۔
آزادی صحافت کی درجہ بندی: چھ پس ماندہ ترین ممالک
آئے دن صحافی اور بلاگرز پر حملے ہوتے ہیں اور انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اس بار اس دن کے حوالے سے میڈیا کی آزادی کے دشمن سمجھے جانے والے دنیا کے چھ بدترین ممالک کی صورتحال پر روشنی ڈالی ہے۔
تصویر: Fotolia/picsfive
شام میں آزادی صحافت کو درپیش مسائل
صدر بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت سے اب تک متعدد صحافی اور بلاگرز یا تو مار دیے گئے ہیں یا تعاقب کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کئی سالوں سے شام کو پریس کی آزادی کا دشمن ملک کہتی آئی ہے۔ شام میں حکومت ہی نہیں بلکہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو اور النصرہ فرنٹ، جو اسد کے خلاف لڑ رہے ہیں، بھی شامی حکومتی میڈیا کے صحافیوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
تصویر: Abd Doumany/AFP/Getty Images
چین میں پریس کی آزادی کا فقدان
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق چین صحافیوں اور بلاگرز کے لیے سب سے بڑی جیل کے مانند ہے۔ آمرانہ حکومت رائے کی آزادی کی سخت دشمن ہے۔ وہاں غیر ملکی صحافیوں پر دباؤ بھی روز بروز بڑھ رہا ہے۔ ملک کے کچھ حصے ان کے لیے بند ہیں۔ صحافیوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے اور انٹرویو دینے والوں اور معاونین کو اکثر و بیشتر حراست میں لے لیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
ویت نام، حکومت کے ناقدین کے خلاف جنگ
ویت نام میں آزاد میڈیا کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ واحد حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی صحافیوں کو بتاتی ہے کہ انہیں کیا شائع کرنا چاہیے۔ ناشر، مدیر اور صحافیوں کا پارٹی ممبر ہونا لازمی ہے۔ بلا گرز حکام کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کی اجارہ داری کے خلاف لکھنے والے بلاگرز کو سنگین نتائج کا سامنا ہوتا ہے۔
تصویر: picture alliance/ZB/A. Burgi
ترکمانستان، خطرناک صورتحال
ترکمانستان کے صدر سرکاری میڈیا پر قابض ہیں۔ استثنا محض اخبار’ریسگال‘ کو حاصل ہے، تب بھی اس کا ہر ایڈیشن صدر کے حکم سے شائع ہوتا ہے۔ اس ملک میں میڈیا پر اجارہ داری کے خلاف ایک نیا قانون بھی جاری ہو گیا ہے، جس کے بعد سے ترکمانستان کے عوام کی غیر ملکی خبر ایجنسیوں تک رسائی ممکن ہو گئی ہے۔ انٹرنیٹ حکومت کے کنٹرول میں ہے اور زیادہ تر ویب سائٹس بلاک کر دی گئی ہیں۔
تصویر: Stringer/AFP/Getty Images
شمالی کوریا، آمر حاکم کی حکمرانی میں
’پریس کی صحافت‘ کی اصطلاح سے شمالی کوریا کا کوئی واستہ نہیں۔ اس ریاست میں آزاد رپورٹننگ صحافیوں کے لیے ناممکن ہے۔ ساری دنیا سے کٹے ہوئے آمر حکمران کم یونگ اُن اپنے میڈیا پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ یہاں محض حکومتی نشریاتی ادارہ ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلز چلا رہا ہے، جس نے اپنی آزاد رائے کا اظہار کیا وہ اپنی فیملی سمیت سنگین مشکلات سے دو چار ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Yonhap/Kcna
اریتریا، افریقہ کا شمالی کوریا
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے افرقیہ کے آمر حکمرانی والے ملک اریتریا کو اپنی اس فہرست میں سب سے آخری نمبر پر رکھا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق دنیا کے کسی دوسرے ملک میں صحافت کے ساتھ اتنا بُرا سلوک نہیں ہو رہا ہے، جتنا اس افریقی ریاست میں۔ بمشکل ہی اس بارے میں مقامی میڈیا کی کوئی رپورٹ سامنے آتی ہے۔ بہت سے صحافیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Juinen
6 تصاویر1 | 6
اس رپورٹ کے مطابق سن 2016ء میں جرمنی کی مسلح افواج میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے 128 واقعات سامنے آئے تھے، جب کہ گزشتہ برس یہ تعداد 234 تک پہنچ گئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی فوج میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جانے کی وجہ سے مبینہ جنسی حملوں کو رپورٹ کرنے میں اضافہ ہوا ہے، اس کے علاوہ فوجی حکام ماضی میں ہونے والے اس واقعات کی تحقیقات بھی کر رہے ہیں۔
جرمن وزیر دفاع اُرزولا فان ڈیر لائن نے گزشتہ برس کہا تھا کہ ان اعداد و شمار کو فوج میں ایسے واقعات میں اضافے سے نہیں جوڑنا چاہیے، کیوں کہ ممکن ہے کہ ماضی میں ایسے واقعات رپورٹ ہی نہ ہوتے ہوں۔
حکام کا کہنا ہے کہ جنسی حملوں اور ہراساں کیے جانے کے کیسز میں ان تمام واقعات کو شامل کیا گیا ہے، جن میں بلامرضی چومنے اور کندھے یا ٹانگ کو چھونے سے لے کر جنسی زیادتی تک کے تمام واقعات شامل ہیں۔
’کم عمر لڑکی کا ریپ اور قتل، پورا ارجنٹائن سڑکوں پر نکل آیا‘
ارجنٹائن میں ایک 16 سالہ لڑکی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اس گھناؤنے جرم کے خلاف ملک بھر میں خواتین سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Fernandez
جنسی زیادتی کے خلاف احتجاج
ارجنٹائن کی عورتیں اور مرد 16 سالہ لڑکی لوسیا پیریز کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے خلاف بڑی تعداد میں سٹرکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت نے کالے لباس پہن کر ہلاک شدہ لڑکی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Abramovich
ہر تیس گھنٹے میں ایک عورت قتل
گزشتہ برس جون میں بھی کئی ایسے واقعات کے بعد غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا تاہم اس بار لوسیا پیریز کی ہلاکت کے بعد بہت بڑی تعداد میں ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ مظاہرین کی جانب سے اٹھائے گئے پلے کارڈز پر لکھا ہے،’’اگر تم نے ہم میں سے کسی ایک کو ہاتھ لگایا تو ہم سب مل کر جواب دیں گی۔‘‘ ایک اندازے کے مطابق ارجنٹائن میں ہر تیس گھنٹے میں ایک عورت قتل کر دی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. R. Caviano
پیریز کو کوکین دے کر نشہ کرایا گیا
لوسیا پیریز آٹھ اکتوبر کو ریپ اور تشدد کا نشانہ بننے کے بعد جانبر نہ ہوسکی تھی۔ پراسیکیوٹر ماریہ ایزابل کا کہنا ہے کہ پیریز کو کوکین دے کر نشہ کرایا گیا تھا اور ’غیر انسانی جنسی تشدد‘ کے باعث اس لڑکی کے حرکت قلب بند ہو گئی تھی۔ مجرموں نے اس کے مردہ جسم کو دھو کر صاف کر دیا تھا تاکہ یہ جرم ایک حادثہ لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Fernandez
ایک بھی زندگی کا نقصان نہیں ہونا چاہیے
پولیس کے مطابق ایک اسکول کے باہر منشیات فروخت کرنے والے دو افراد کو پولیس نے اس جرم کے شبے میں حراست میں لے لیا ہے۔ لوسیا پیریز کے بھائی ماتھیاز کا کہنا ہے کہ احتجاجی مظاہروں کے ذریعے مزید لڑکیوں کو ظلم کا شکار ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ماتھیاز نے کہا، ’’اب ایک بھی زندگی کا نقصان نہیں ہونا چاہیے، ہمیں باہر نکل کر یہ زور زور سے بتانا ہوگا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. R. Caviano
4 تصاویر1 | 4
گزشتہ برس نومبر میں وفاقی جرمن فوج میں رونما ہونے والے ایسے واقعات اس وقت بھی میڈیا کی شہ سرخیوں میں آئے تھے، جب ایک 29 سالہ مرد فوجی پر دو خواتین فوجیوں پر جنسی حملے کا الزام سامنے آیا تھا۔ تب بتایا گیا تھا کہ یہ واقعات شمالی شہر ہیمبر گ کے قریب ایک فوجی تربیتی مرکز میں رونما ہوئے تھے۔ ان واقعات پر شدید تنقید اس وقت ہوئی تھی، جب ایک دوسرے فوجی نے ایک حملے کی ویڈیو تو بنائی تھی، تاہم اسے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ فُنکے میڈیا گروپ کے مطابق استثغاثہ ان واقعات کی تفتیش اگلے ماہ فروری میں مکمل کر لے گا۔