1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوج کاروبار نہیں صرف دفاع کا کام کرے، چیف جسٹس پاکستان

15 فروری 2024

پاکستان کے چیف جسٹس نے کہا کہ فوج کا کام کاروبار کرنا نہیں بلکہ ملک کا دفاع کرنا ہے، لہذا وہ کاروباری سرگرمیوں سے گریز کرے۔ انہوں نے اس کو یقینی بنانے کے لیے وفاقی حکومت سے اپنے عزم پر عمل درآمد کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہر ایک کو اپنے مینڈیٹ میں رہنا چاہیے،
پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہر ایک کو اپنے مینڈیٹ میں رہنا چاہیے،تصویر: Supreme Court of Pakistan

پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بدھ کے روز تجارتی مقاصد کے لیے فوج کی زمین کے استعمال کے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ "ہر ایک کو اپنے مینڈیٹ میں رہنا چاہیے، فوج اپنا کام کرے، عدالتیں اپنا کام کریں۔"

ایک تین رکنی بنچ کی صدارت کرتے ہوئے جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ "فوج نے دی گئی زمین پر شادی ہالز اور دیگر کام شروع کر رکھے ہیں۔ اور اٹارنی جنرل اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ فوج صرف دفاع کا کام کرے گی کاروبار نہیں۔"

اس پر اٹارنی جنرل نے جواباً کہا کہ "اصول تو یہی ہے کہ سب اپنا اپنا کام کریں۔"

فوج کی مقبولیت کا گیلپ سروے تنقید کی زد میں

چیف جسٹس نے اس پر اپنے ریمارکس میں کہا کہ "اگر آپ کو ایسی ہدایات ہیں تو عدالت کو یقین دہانی کرا دیں۔"

چیف جسٹس نے کہا کہ مسلح افواج تجارتی سرگرمیوں کے بجائے دفاع سے متعلق امور پر اپنی توجہ مرکوز کرےتصویر: Ali Kayfee/DW

معاملہ کیا ہے؟

یہ کیس سابق چیف جسٹس گلزار احمد نے سن 2021 میں اس وقت شروع کیا تھا جب عدالت کی توجہ کراچی میں کنٹونمنٹ بورڈ کی زمینوں کے مبینہ غیر قانونی استعمال کی جانب مبذول کرائی گئی تھی۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ان زمینوں کو فوج نے اسٹریٹیجک مقاصد کے لیے حاصل کیا تھا لیکن اس کا استعمال تجارتی فائدے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

عدالت اس سلسلے میں چھ متفرق درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ ان میں پہلی درخواست 2017 میں دائر ہوئی تھی جو فلیٹ پر غیر قانونی تعمیرات و قبضوں سے متعلق تھی۔ اس کے علاوہ درخواست گزار کی زمین پر غیر قانونی پلازہ کی تعمیر سے متعلق درخواست بھی شامل ہے۔

پاکستانی فوج میں کرپشن کے الزامات کی حقیقت کیا؟

 سماعت کے موقع پر متروکہ وقف املاک بورڈ (ای ٹی پی بی) کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جس عمارت سے تنازعہ شروع ہوا وہ عمارت بورڈ کی ہے، کیونکہ جس فرد کو زمین الاٹ کی گئی تھی اس نے اسے جعلی کاغذات پر فروخت کیا جس کے بعد پانچ منزلہ عمارت بن گئی۔

عدالت نے اس پر سوال کیا کہ کیا ای ٹی پی بی عمارت کی تعمیر کے وقت تماشائی تھا؟

چیف جسٹس عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس سی بی اے) کی ملی بھگت کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔

’سیاسی و تجارتی کردار‘، پاکستانی فوج تنقید کی زد میں

انہوں نے مزید کہا کہ" ایس سی بی اے کے انسپکٹرز اور اوپر کے افسران کے اثاثے چیک کرانے چاہیں، کراچی کے سب رجسٹرارز کے اثاثوں کا آڈٹ بھی ایف بی آر سے کرانا چاہیے، آمدن سے زائد تمام اثاثوں سے رقم مسمار کی گئی عمارتوں کے رہائشیوں کو ملنی چاہیے، لیکن سندھ حکومت یہ انکوائری کبھی نہیں کرے گی۔"

عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ "کراچی میں غیرقانونی تعمیرات اور رہائشی عمارتوں کو کمرشل کیا جا رہا ہے، بلڈرز منافع لے کر نکل جاتے ہیں، سندھ بلدنگ کنٹرول اتھارٹی نظریں چرا لیتی ہے، بلڈنگ مکمل ہونے کے بعد ایس بی سی اے انہیں مسمار کرنے پہنچ جاتا ہے، لیکن عمارت مکمل ہونے کے بعد مسمار کرنے سے رہائشیوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔"

 ج ا / ص ز (خبررساں ادارے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں