1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’فوج کا بیان اور آخر بات مذاکرات تک آ ہی گئی‘

امتیاز احمد21 اگست 2014

گزشتہ ایک ہفتے سے جاری سیاسی بحران کے حل کے لیے حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں نے مذاکرات کے آغاز پر اتفاق کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں پہلے روز کے مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے اختتام پذیر ہو گئے جبکہ مذاکرات کا دوسرا دور آج ہوگا۔

تصویر: REUTERS

تجزیہ کاروں کے مطابق آج سے دو دن پہلے تک حکومت مخالف دونوں جماعتیں ہی مذاکرات کی مخالفت کر رہی تھیں اور ان کا خیال تھا کہ ’آزادی مارچ‘ اور ’انقلاب‘ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اب دونوں جماعتوں نے مذاکرات پر رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے ان کا آغاز کر دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق دونوں حکومت مخالف جماعتوں کے موقف میں تبدیلی آرمی کی طرف سے جاری ہونے والے اس بیان کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں فریقین سے مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کرنے کا کہا گیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کے ہزاروں کارکن اس وقت پاکستانی پارلیمان کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ ان دونوں حکومت مخالف رہنماؤں نے وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ دونوں جماعتوں نے احتجاجی مظاہروں کا آغاز چودہ اگست کو لاہور سے کیا تھا۔

گزشتہ روز تحریک انصاف کے رہنماؤں نے حکومتی وزراء سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا، ’’ ہم نے حکومتی ٹیم کے سامنے اپنے مطالبات رکھ دیے ہیں اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ ان کا جائزہ لینے کے بعد جمعرات کو ہم سے رابطہ کیا جائے گا۔‘‘

اس پہلے عمران خان کی طرف سے ایک مرتبہ پھر سخت بیان سامنے آیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے، جب تک وزیراعظم نواز شریف مستعفی نہیں ہو جاتے۔ دوسری جانب حکومتی اہلکار متعدد مرتبہ دہرا چکے ہیں کہ وزیراعظم کے استعفے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وہ ایک نقطہ ہے، جس پر اگر فریقین نے لچک نہ دکھائی تو مذاکرات جمود کا شکار ہو سکتے ہیں۔

نیوز ایجنسی اے اہف پی کے مطابق دونوں حکومت مخالف جماعتیں مل کر احتجاج کر رہی ہیں اور اسی وجہ سے حکومت پر دباؤ بھی زیادہ ہے۔ حکومت عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری سے بھی مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے۔ بظاہر عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے مقاصد بھی مختلف ہیں اور اگر طاہر القادری کی حکومت سے کوئی ڈیل ہو جاتی ہے تو سخت موقف کے باوجود عمران خان کی پوزیشن بھی کمزور ہو جائے گی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق فوج کی طرف سے سامنے آنے والے بیان اور اس کے بعد مذاکرات کے آغاز سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ملک کی سیاست میں اب بھی فوج کی مانی جاتی ہے۔ دوسری جانب خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے ساتھ اختلافات کے باوجود فوج سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ان کے مطابق یہ عمران خان اور قادری تھے، جو فوج کو درمیان میں لانا چاہتے تھے۔ ان کے مطابق اس سیاسی بحران نے نواز شریف کو کمزور کر دیا ہے، ’’اب اگر نواز شریف اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں، تو ان کے پاس فوج کی بات سننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں