1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوراً شادی کر لیں؟

24 مئی 2024

یہ مشورہ کہ جو ملے اس سے فوراً بیاہ رچا لیں کسی صورت قابل عمل نہیں ہو سکتا۔ گھر والوں اور سماجی دباؤ کا شکار ہو کر کی جانے والی شادیاں اکثر پشیمانی کا سبب بنتی ہیں۔

تصویر: Privat

تیس سال کی عمر تک آتے آتے اکثر مرد اور عورتیں اپنا کیریئر سیٹ کر چکے ہوتے ہیں یا اس کے لیے محنت کر رہے ہوتے ہیں۔

کچھ روز قبل سوشل میڈیا  وال سکرول کرتے وقت ایک پوسٹ پر نظر پڑی، جس میں کسی خاتون نے اپنی  کسی جاننے والی کی بات کا ذکر کر رکھا تھا۔ جاننے والی اس محترمہ کے مطابق تیس سال سے زائد عمر کی لڑکیوں کو جو بھی جیسا بھی رشتہ ملے اس پر ہاں کر کے فوراً شادی جیسا فریضہ ادا کر دینا چاہیے۔ 

اس پوسٹ سے مجھے بھی میرے کچھ دوستوں کے ایسے ہی مشورے یاد آئے، جو مجھے ایک مدت سے یہ ہی کہتے ہیں کہ جو بھی ملے فوراً اس سے شادی کر لو۔ جیسے کہ ملنے والا تو اسی چاہ میں ہم سے آ ٹکرایا ہے کہ ہم ہاتھ میں پھولوں کی مالا اور نکاح نامہ لیے ایک نکاح خواں کے ساتھ اس کو خوش آمدید کہیں گے۔

اور وہ  کئی سالوں بلکہ کئی جنموں سے شدید  ذہنی اور جسمانی کنوار پن کے ساتھ  ہماری تلاش میں ہی سرگرداں ہو گا کہ جونہی وہ ہمیں ملے گا ہم میرے سرتاج میرے سرتاج پکارتے ہوئے اس کے قدموں میں ڈھیر ہوجائیں گے۔ بیک گراؤنڈ میں شہنائیوں کی آوازیں گونجیں گی، دو لوو برڈز کہیں سے اڑ کر آئیں گے ہمارے سروں کے اوپر چکر کاٹ کر منڈیر پر جا بیٹھیں گے اور زندگی کی سکرین پر دی اینڈ لکھا ہوا پلے ہو گا۔  سب تماشائی تالیاں بجائیں گے اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے۔

کیا زندگی واقعی کوئی فلم ہے؟

اتنی ہی سادہ اور آسان کہ جو ملے اس سے بغیر کسی ذہنی اور سماجی ہم آہنگی کے نکاح کے دو بول پڑھوا لیے جائیں۔اور سارے زمانے کی فکر ختم کرنے کے لیے اپنی، اپنے تشخص، اب تک کی محنت اور مقام کی قربانی دے دی جائے کیونکہ اگر ہم شادی کے ٹیگ کے بغیر پھر رہے ہیں توآپ کے نزدیک ہماری کوئی کامیابی اور کسی طرح کی ترقی کوئی معنی نہیں رکھتی۔

اور اس پر مستزاد یہ کہ ایسا مشورہ دینے والے لوگوں کے اپنے شادی شدہ حالات شادی زدہ ہی ہوتے ہیں۔ کہیں معاشی مسئلے تو کہیں ازدواجی، کسی کا میاں کسی دوسری عورت کے چکر میں ہے تو کسی کی بیوی کسی اور سے چھپ چھپ کے میل ملاقاتیں کرتی پھر رہی ہے۔

کہیں اولاد کی تعلیم اور تربیت ایسی ہے کہ انہیں دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ وہ ایسے خود غرض ماں باپ کے گھر پیدا ہو گئے، جن کے لیے زیادہ بچوں سے مراد زیادہ تعداد میں کمانے والے ہاتھ پیدا کرنا ہے چاہے پھر وہ چور بنیں، ڈکیت ہوں یا پھر ان گھڑے سے رویوں کے ساتھ دھرتی پر بوجھ ہی کیوں نہ ہوں۔

مگر انہیں لگتا ہے کہ شادی کرنا اور بچے پیدا کرنا ہی انسان کا پہلا اور آخری  فرض ہے۔ ان جیسے خیر خواہوں سے کئی بار سوال بھی کیا کہ  کیا آپ نے بھی شادی ایسے ہی کی تھی کہ جو پہلے مل گیا اس سے چپک گئے؟ ان کے حالات دیکھ کر اکثر یہ ہی گمان ہوتا ہے کہ شادی کا یہ ہی پیٹرن انہوں نے اپنایا ہو گا ورنہ کچھ بہتر ہی ڈھونڈ لیتے  یا اگلوں کو کچھ بہتر مل جاتا۔

بہرحال یہ مشورہ کہ جو ملے اس سے فوراً بیاہ رچا لیں کسی صورت قابل عمل نہیں ہو سکتا۔ تیس سال کی عمر تک آتے آتے اکثر مرد اور عورتیں اپنا کیریئر سیٹ کر چکے ہوتے ہیں یا اس کے لیے محنت کر رہے ہوتے ہیں۔

یہاں تک کہ گھر بیٹھی ہوئی لڑکیاں جو ملازمت یا بزنس نہیں بھی کر رہی ہوتیں وہ بھی اپنے رویوں اور پسند نا پسند کے معاملے بہت میچیور ہو چکی ہوتی ہیں۔ ان کے رویوں میں جو پختگی در آتی ہے وہ کسی صورت انہیں اپنی ذہنی اور سماجی سطح سے نیچے جا کر سمجھوتہ نہیں کرنے دیتی۔ البتہ اگر دو تین سطحوں پر مطابقت مل جائے تو ایسے کسی بھی تعلق کو بنانا آسان ہوتا ہے۔ 

لیکن اس کے لیے بھی ارینج میرج جیسا آپشن کم ہی سوٹ کرتا ہے کیونکہ ماں باپ کو اکثر اپنے سر سے بوجھ اتارنے کی جلدی ہوتی ہے اور جن لیولز پر وہ رشتہ طے کر رہے ہوتے ہیں ان لیولز پر کوئی بھی پختہ ذہن کی اولاد سمجھوتہ کر بھی لے تو زیادہ تر نتائج اچھے ثابت نہیں ہوتے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی لڑکا یا لڑکی تیس پینتیس تک شادی جیسے رشتے میں نہیں بندھتے اور اپنی شخصیت کی پرداخت پر محنت کرتے ہیں تو لا محالہ وہ اپنے ہی جیسا لائف پارٹنر چاہیں گے۔ لیکن معاشرے کے رائج معیارات کے مطابق تیس سے اوپر کی لڑکیاں تو آوٹ ڈیٹڈ ہوجاتی ہیں۔ 

اسی وجہ سے تیس سال کے بعد ہم عورتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم خود چاہے ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوں یا پی ایچ ڈی ڈاکٹر، ہمیں ایک عدد شوہر چاہے وہ کسی صورت ہم سے لگا نہ کھاتا ہو، اسے قبول کرلینا چاہیے۔ اور اس کا احسان مند بھی ہونا چاہیے کہ اس نے ایک بوڑھی ہوتی ہوئی عور ت کو بیوی بنانے کے قابل سمجھا۔

مجھے بچپن کی یاد تازہ ہوگئی جب ہمارے گھر کی پچھلی دیوار کے ساتھ خالی پلاٹ میں جھگیوں والے آکر رہنے لگے تھے۔ 

ان  کی جھگیاں بہت وسیع اور جدید سامان سے آراستہ ہوتی تھیں۔ ان کی عورتیں اور بچےصبح ناشتے کے بعد شہر میں پھیل جاتے کبھی بھیک مانگ کر لاتے تو کبھی کوڑا اکٹھا کرتے دکھائی دیتے لیکن ان کے گھروں کے مرد سفید کلف  لگے کپڑے پہن کر سارا دن جھگیوں میں بچھی رنگیلی چارپائیوں پر براجمان رہتے۔ فلمیں دیکھتے، مجرے والے گانے سنتے اور ان کی عورتیں کما کر لاتیں واپس آکر وہ عورتیں چولہا چو کا بھی کرتیں اور کئی بار ہم نے دیکھا کہ مرد چرسیں پھونک کر حقہ پیتے اور وہ ان کی ٹانگیں دبا رہی ہوتیں ۔

تو بہنو اور بھائیو! اگر ایک تعلیم یافتہ، ملازمت کرتی ہوئی اور اپنی زندگی میں کامیاب عورت نے  بھی اسی طرح کا پہلی فرصت میں ملا ہوا کوئی شوہر ہی پالنا ہے تو ان جھگیوں والی عورتوں اور  ان میں تو کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔

اس لیے اگر آپ واقعی کسی  سے ہم دردی رکھتے ہیں تو یہ مشورہ دینے کی بجائے یوں کہیئے کہ  ایک سوٹ ایبل رشتہ ملنے پر ہی شادی کیجئے گا  اور ہاں وہ موافق رشتہ جلدی ڈھونڈ لیں تاکہ فوراً شادی  کر سکیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ آپ کی تان شادی پر ہی ٹوٹے گی لہذا تھوڑا آپ مشورے کا ڈھنگ بدل دیکھیں تھوڑا ہم آپ کے مشورے پر غور کر لیتے ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔‍

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں