فوڈ فیسٹیول: فرائنگ پین پھٹنے سے ایک ہلاک، درجن سے زائد زخمی
9 ستمبر 2019
جرمنی میں کھانے پینے کی اشیاء کے ایک میلے کے دوران ایک بڑا فرائنگ پین پھٹنے سے ایک عورت ہلاک اور درجن سے زائد شرکاء زخمی ہو گئے۔ وفاقی صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں پیش آنے والے اس واقعے کی چھان بین شروع کر دی گئی ہے۔
اشتہار
نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق اتوار آٹھ ستمبر یہ فوڈ فیسٹیول جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ وائن ویسٹ فیلیا میں کولون شہر سے مشرق کی طرف واقع چھوٹے سے قصبے آلخن فروئڈن برگ میں جاری تھا کہ ایک سٹال پر رکھا ہوا ایک بڑا فرائنگ پین اس وقت دھماکے سے پھٹ گیا، جب وہاں کافی زیادہ تعداد میں لوگ جمع تھے۔ منتظمین کے مطابق اس وقت اس میلے میں موجود افراد کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب تھی۔
فرائنگ پین پھٹنے سے ایک درجن سے زائد افراد جل کر بری طرح زخمی ہو گئے۔ ان میں سے ایک خاتون، جس کا جسم پوری طرح جل گیا تھا، پیر نو ستمبر کو اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئی۔
طبی ذرائع کے مطابق اس واقعے میں زخمی ہونے والوں میں سے چھ افراد کی حالت نازک ہے۔ ان میں سے پانچ بری طرح جل جانے کے باعث شدید زخمی ہو گئے تھے جبکہ ایک شخص کو دھماکے کی شدت کے باعث موقع پر ہی دل کا دورہ پڑ گیا تھا۔
پولیس نے بتایا کہ روایتی اشیائے خوراک کے اس میلے کے ایک سٹال پر جو کافی بڑا فرائنگ پین دھماکے سے پھٹا، اس میں ابلتے ہوئے تیل میں آلو کے چپس تیار کیے جا رہے تھے۔
اس بات کی چھان بین کی جا رہی ہے کہ یہ دھماکا کس وجہ سے ہوا۔ تفتیشی ماہرین کے بقول یہ امکان بھی ہے کہ یہ فرائنگ پین اس کے نیچے لگے گیس کے سلنڈر کی وجہ سے دھماکے سے پھٹ گیا ہو۔
پولیس نے یہ بھی بتایا کہ اس واقعے کے بعد زخمیوں کو ایمرجنسی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ڈورٹمنڈ، کولون اور بوخُم کے شہروں کے مختلف ہسپتالوں میں پہنچا دیا گیا تھا، جہاں ان کا علاج جا ری ہے۔
اس دھماکے کے نتیجے میں مجموعی طور پر اتنے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے کہ ان میں سے 14 کو تو موقع پر ہی مرہم پٹی کر کے فارغ کر دیا گیا جبکہ باقی مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
م م / ا ا / ڈی پی اے
جرمن عوام کے لیے اطالوی ذائقے
جرمنی روایتی طور پر کھانے پینے کے معاملے میں قیمہ بھری آنت، سوسیج اور الکوحل مشروب بیئر کے لیے مشہور ہے مگر یہاں بسنے والے ہزاروں اطالوی شہریوں نے لوگوں کو اپنے ہاتھ کے ذائقوں کا گرویدہ کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
صدیوں سے ٹھنڈا اور میٹھا ذائقہ
جرمنی میں قریب دو صدیوں سے آئسکریم بہت شوق سے کھائی جارہی ہے
تصویر: picture-alliance/dpa
گرم اخروٹ سے ٹھنڈی آئسکریم تک کا سفر
ابتداء میں جرمنی میں آئسکریم فروخت کرنے والے اطالوی شہریوں کا تعلق ڈولمائک کے پہاڑی علاقے سے تھا۔ یہ لوگ موسم گرما میں کھیتوں اور لکڑی تراشنے کا کام کرتے تھے اور موسم سرما میں یہ اٹلی کے شمالی شہروں میں گرم اخروٹ بیچتے تھے۔ سن 1800ء کے قریب بہت سے اطالوی شہری آئسکریم بنانا سیکھ گئے تھے۔
تصویر: Uniteis e.V.
شمال سے آئسکریم کی ہجرت
آئس کریم بنانے کے ماہر افراد نے شمالی اٹلی سے ہالینڈ اور جرمنی کا رخ کرنا شروع کیا۔ ان ممالک میں پہلے ہی سے موجود اطالوی مہمان کارکنوں نے ان کو مدد فراہم کی۔
تصویر: Uniteis e.V.
پہلے سائیکل گاڑی پھر آئسکریم پارلر
یورپ بھر میں سن 1900ء کے زمانے میں اطالوی آئسکریم بیچنے والے پھیل گئے اور ان میں سے بیشتر کوئی دکان کھولنے کی استطاعت نہ ہونے کے سبب گاڑیوں میں آئسکریم بیچا کرتے تھے۔
تصویر: Uniteis e.V.
عالمی جنگ کے بعد کی شہرت
پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد 1930ء میں اطالوی آئسکریم کا رواج خوب پروان چڑھا جب مختلف علاقوں میں بحیرہ روم کے روایتی کھانوں اور امریکی طرز کے پیزہ کے ساتھ ساتھ آئسکریم بھی بیچی جانے لگی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فن کی نسل درنسل منتقلی
آئسکریم بنانے کا طریقہ نسل در نسل زبانی انداز میں منتقل ہوتا رہا۔ گرچہ اطالوی قوم آئسکریم کی موجد نہیں۔ جیلاٹو نامی آئسکریم روایتی طور پر دودھ، انڈے، چینی اور پھلوں کے قدرتی ذائقوں کو ملا کر بنائی جاتی ہے۔
تصویر: DW/S. Ahadi
صنعتی اور تازہ آئسکریم کے ذائقے
جرمنی میں فروخت کی جانے والی 85 فیصد آئسکریم صنعتی پیمانے پر تیار کی جاتی ہے جبکہ بقیہ 15 فیصد اطالوی پس منظر کے حامل شہری تازہ تیار کرکے فروخت کرتے ہیں۔ تازہ آئسکریم کی چیدہ مثالوں میں روایتی سٹرابیری اور stracciatella آئسکریم جبکہ نئی تخلیق میں سبز یاسمین، کھوپرے اور لیمن گراس کے ذائقے والی آئسکریم خاصی مشہور ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ونیلا اور کیریمل پسندیدہ آئسکریم
جرمنی میں اطالوی آئسکریم فروخت کرنے والوں کی تنظیم کے مطابق رواں برس تین سرفہرست روایقی ذائقوں میں وینیلا، چاکلیٹ اور سٹرابیری جبکہ ایڈونچر کے شوقین افراد میں کیریمل سالٹ، وائن یارڈ آڑو کے ساتھ شیمپین والی آئسکریم سرفہرست ہے۔
تصویر: dapd
الرجی والے بھی مزے میں
ایسے افراد جنہیں دودھ میں شامل جُزو لیکٹوز سے الرجی لاحق ہے ان کے لیے خصوصی طور پر بکری کے دودھ سے تیار کردہ آئسکریم بھی دستیاب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
میٹھا میٹھا موسم گرما
جرمنی میں آئسکریم کا رواج قریب دو سو برس پہلے پروان چڑھا جب چینی ایک نایاب اور پرتعیش چیز ہوا کرتی تھی۔ آج کل سالانہ کی بنیاد پر ایک جرمن شہری قریب آٹھ لٹر آئسکریم کھاجاتا ہے تاہم یہ مقدار چھبیس لیٹر سالانہ آئسکریم کھانے والے امریکیوں کے مقابلے میں پھر بھی بہت کم ہے۔