فوکس واگن نے کھوئی ہوئی پوزیشن ٹیسلا سے واپس چھین لی
8 اگست 2023
جرمن کار ساز ادارے فوکس واگن نے جرمنی میں الیکٹرک گاڑیوں کی سب سے زیادہ فروخت کا اعزاز امریکی کار ساز ادارے ٹیسلا سے واپس حاصل کر لیا ہے۔
اشتہار
رواں برس کے پہلے سات ماہ کے دوران جرمنی میں فروخت ہونے والی الیکٹرک گاڑیوں میں سے سب سے زیادہ تعداد جرمن کار ساز ادارے فوکس واگن کی رہی۔ امریکی کار ساز ادارے ٹیسلا کی بجلی سے چلنے والی گاڑیاں جرمنی میں فروخت کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر رہیں۔
الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت میں کافی زیادہ اضافہ ہوا ہے لیکن ان سات ماہ کے دوران پھر بھی فروخت ہونے والی نئی الیکٹرک گاڑیوں کی مجموعی تعداد پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کی فروخت سے بہت زیادہ کم رہی۔
الیکٹرک گاڑیاں: سب کچھ کیسے تبدیل ہو جائے گا؟
04:16
اعداد وشمار کیا رہے؟
رواں برس کے آغاز سے جولائی کے اختتام تک جرمن شہر وولفس برگ میں قائم کمپنی فوکس واگن کی پہلی مرتبہ رجسٹر ہونے والی الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد 41,475 رہی۔ اس کے مقابلے میں ٹیسلا کی جرمنی میں فروخت ہونے والی گاڑیوں کی تعداد 40,289 رہی۔ خیال رہے کہ ٹیسلا صرف الیکٹرک گاڑیاں ہی تیار کرتی ہے۔
اشتہار
جرمنی کی فیڈرل موٹر ٹرانسپورٹ اتھارٹی (کے بی اے) کے اعداد و شمار کے مطابق، ٹیسلا سال کے پہلے چھ ماہ تک فوکس واگن یا وی ڈبلیو سے آگے تھی، اور مجموعی طور پر 2022 کے دوران جرمنی میں سب سے زیادہ الیکٹرک گاڑیاں ٹیسلا کی ہی فروخت ہوئیں۔
پہلے سات ماہ کے دوران الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت کے لحاظ سے تیسری، چوتھی اور پانچویں پوزیشن بھی جرمن کار ساز اداروں نے ہی حاصل کی ہے۔ مرسڈیز 20,613 رجسٹریشن کے ساتھ تیسرے اور آوڈی 16,786 رجسٹریشن کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہی۔
بی ایم ڈبلیو بھی 15,987 نئی الیکٹرک گاڑیوں کی رجسٹریشن کے ساتھ زیادہ پیچھے نہیں ہے اور پانچویں نمبر پر ہے۔
کے بی اے کے مطابق مجموعی طور پر ، جنوری کے آغاز سے جولائی کے آخر تک جرمنی میں 268،926 الیکٹرک گاڑیوں کی پہلی رجسٹریشن ہوئی۔
انٹرنیشنل موٹر شو: نقل و حرکت کے لیے گاڑیوں کے علاوہ سب کچھ
جرمنی کے شہر میونخ میں گاڑیوں کے بین الاقوامی میلے میں گاڑیوں کے ساتھ ساتھ مختلف الیکٹرک سائیکلیں بھی نمائش کے لیے پیش کی جارہی ہیں۔ دو سے تین پہیوں پر چلنے والی سائیکلیں گاڑیوں والے تمام تر کام انجام دے سکتی ہیں۔
تصویر: Henrik Böhme/DW
حدِ نظر دو پہیوں والی سواریاں
میونخ کی نمائش گاہ کے دو نئے ہالوں کو مکمل طور پر سائیکلیں تیار کرنے والے نمائش کنندگان کے لیے مختص کر دیا گیا۔ اس مرتبہ گاڑیاں بنانے والوں سے زیادہ سائیکلیں بنانے والے دکھائی دیے۔ یوں لگا کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی سائکلوں کی نمائش ’یورو بائک‘ میں پہنچ گئے ہیں۔
تصویر: Henrik Böhme/DW
ماؤنٹین بائیکس کے لیے پہاڑی راستے
ماضی میں انٹرنیشنل موٹر شو میں اسپورٹس اور دیگر گاڑیوں کی ٹیسٹ ڈرائیو کے لیے کھلی فضا میں فاسٹ اسپیڈ ٹریک قائم کیا جاتا تھا۔ مگر اس مرتبہ مرسیڈیز بینز اور دیگر نمائش کنندگان نے ماؤنٹین بائیکس کے لیے اونچی نیچی ڈھلانوں کے راستے بنائے ہیں۔
تصویر: Henrik Böhme/DW
ای اسکوٹر سے بہتر ’مائکرو لیٹا‘
سوئٹزرلینڈ کے مائکرو موبیلیٹی سسٹم نامی اسٹارٹ اپ نے ایک ٹو سیٹر سواری تیار کی ہے۔ تین پہیوں والے اس اسکوٹر کو اسمارٹ فون کی بیٹری کی طرح تیزی سے چارج کیا جاسکتا ہے۔ مائکرو لیٹا نامی اسکوٹر کی بیٹری آسانی سے نکال کر گھر پر بھی چارج کی جاسکتی ہے۔
تصویر: Henrik Böhme/DW
ای کارگو بائیک
جرمن شہر کولون کی ایک کمپنی اے این ٹی کی تیار کردہ ’ہیوی ڈیوٹی ای کارگو بائیک‘ ورکرز کے لیے مستقبل میں ایک اہم سواری ثابت ہو سکتی ہے۔ جرمن سیاسی جماعت گرین پارٹی اس کارگو بائیک کی خریداری پر ایک ہزار یورو کی سبسڈی دینا چاہتی ہے۔
تصویر: Henrik Böhme/DW
چھوٹی لیکن مضبوط سواری
اس ای بائیک کو بنانے والی کمپنی کا نام ہے ’آکُو راڈ‘ یعنی بیٹری سے چلنے والے پہیے۔ اس سواری کو مختلف کاموں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس میں ایپل کار پلے سسٹم بھی نصب ہے۔
تصویر: Henrik Böhme/DW
ٹریفک کا رش، اب کوئی مسئلہ نہیں!
اگر کوریئر کی گاڑی ٹریفک میں پھنس جائے تو ’اربن_ایم‘ نامی پیڈل والی چھوٹی سی کارگو سواری کام آسکتی ہے۔ جرمن علاقے زاورلینڈ کی موبیا نامی کمپنی نے اسے تیار کیا ہے۔ یہ کمپنی آٹو انڈسٹری کی ایک بڑی سپلائر ہے لیکن اب وہ بھی تحفظ ماحول کے لیے سائیکل کے نت نئے ماڈلز تیار کر رہی ہے۔
تصویر: Henrik Böhme/DW
مائکرو موبائل بائک
ایک اور جرمن آٹوموٹو سپلائر ہِرش فوگل بھی نقل و حرکت کے حوالے سے فیوچر آئیڈیاز پر کام کر رہا ہے۔ انہوں نے ’ایکزیمو‘ کے نام سے مائکرو سواری کا ایک ایسا ڈھانچہ تیار کیا ہے جو مختلف طریقوں سے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
تصویر: Henrik Böhme/DW
تنگ پارکنگ میں سکڑ جانے والی سواری
جرمن صوبے باویریا کی کمپنی روڈنگ آٹوموبائل عام طور پر بڑی گاڑیوں کے پروٹو ٹائپ تیار کرتی ہے۔ مگر اس نمائش میں وہ ایک اسرائیلی اسٹارٹ اپ کے ساتھ ’سٹی ٹرانسفورمر‘ پیش کر رہی ہے۔ یہ ایک فولڈ ایبل الیکٹرک سواری ہے، جو ضرورت پڑنے پر سُکڑ بھی سکتی ہے۔ خاص طور پر اس وقت، جب پارکنگ کی جگہ کافی تنگ ہو۔
تصویر: Sven Hoppe/dpa/picture alliance
ڈرائیور کے بغیر سفر کرنے والی بسیں
ہیمبرگ میں خودکار بسوں کو پہلے سے آزمائشی مرحلے کے طور پر چلایا جارہا ہے۔ ’آئی کرسٹل‘ نامی یہ شَٹل بس زیادہ سے زیادہ 16 مسافروں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچا سکتی ہے۔ سن 2023 تک اس خودکار بس کا باقاعدہ استعمال شروع کردیا جائے گا۔
تصویر: Henrik Böhme/DW
اُڑنے والی گاڑیاں
ہالینڈ کی ایک کمپنی نے ’لبرٹی‘ کے نام سے ایک اُڑنے والی گاڑی کا ماڈل تیار کیا ہے۔ یہ اُڑن کھٹولا سپر پٹرول ایندھن سے چلتا ہے۔ اس گاڑی کو چلانے یا اڑانے کے لیے فی الحال کافی زیادہ اجازت درکار ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے کئی سالوں سے پہلی پرواز کئی سالوں تک ملتوی کردی گئی ہے۔
تصویر: Henrik Böhme/DW
10 تصاویر1 | 10
تاہم یہ تعداد اب بھی انٹرنل کمبشن انجن والی گاڑیوں سے بہت پیچھے ہے، سات ماہ کے دوران مجموعی طور پر 1.64 ملین ایسی گاڑیوں کی پہلی رجسٹریشن ہوئی۔
اگرچہ رواں برس کے آغاز سے مجموعی طور پر کاروں کی فروخت میں بہتری آئی ہے، لیکن وہ اب بھی کووڈ انیس کی عالمی وبا سے قبل 2019 میں ریکارڈ کی گئی سطح سے کافی کم ہیں۔
جرمنی کی صنعتی تنظیم وی ڈی اے کے مطابق فوکس واگن اور بی ایم ڈبلیو جیسی جرمن کار ساز کمپنیوں نے جولائی میں 300,300 گاڑیاں تیار کیں جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ ہیں۔
سپلائی چین کے مسائل، خاص طور پر جب سیمی کنڈکٹرز کی عدم دستیابی نے اس شعبے کو متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں کی فراہمی کا سلسلہ متاثر ہوا۔
اس کے باوجود الیکٹرک گاڑیوں کی رجسٹریشن کی تعداد میں خاطو خواہ اضافہ ہوا ہے۔ سال بہ سال کی بنیاد پر جولائی میں ان کی تعداد میں تقریباﹰ 70 فیصد کا اضافہ ہوا اور نئی ہونے والی مجموعی رجسٹریشن کا 20 فیصد رہا ۔
جرمنی: ٹیسلا گاڑیوں کے مخلص صارف
03:00
This browser does not support the video element.
تجزیہ کاروں نے تاہم متنبہ کیا ہے کہ کمپنیوں کے لیے خریدی جانے والی الیکٹرک کاروں کے لیے دی جانے والی حکومتی سبسڈی ختم ہونے سے ممکنہ طور پر ستمبر سے الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ متاثر ہوگی۔
جرمنی کی معیشت کے کمزور ہونے، سست شرح نمو، افراط زر کی بلند شرح اور بڑھتی ہوئی شرح سود سے بھی مارکیٹ پر اثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیں۔