جاپانی حکومت فوکوشیما کے جوہری حادثے کے بعد زندگی کو معمول پر لانے کی کوششوں میں ہے۔ تاہم بہت سی خواتین اور بچے ابھی بھی اس حادثے کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔ ہزاروں ماؤں نے حکام کے خلاف مقدمہ کیا ہوا ہے۔
اشتہار
چھ سال قبل جاپان کو ایک ساتھ تین بحرانوں کو سامنا کرنا پڑا۔ پہلے زلزلہ، پھر سونامی اور آخر میں فوکوشیما کے جوہری پلانٹ کی تباہی۔ اس دوران تقریباً بیس ہزار جاپانی شہری ہلاک ہوئے جب کہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ اسی لاکھ شہری ابھی تک عارضی پناہ گاہوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
گیارہ مارچ 2011ء کو آنے والی اس تباہی کے بارے میں تحفظ ماحول کے لیے سرگرم تنظیم گرین پیس نے ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں واضح کیا گیا ہے کہ اس حادثے نے متاثرہ طبقوں کے ہر فرد پر اپنے نقوش چھوڑے ہیں، ’’یہ خواتین اور بچے ہی ہیں، جو اس حادثے کے نتیجے میں سامنے آنے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے صدموں کو آج تک برداشت کر رہے ہیں اور حکام کے خلاف کمر بستہ ہیں۔‘‘
اس رپورٹ کے مطابق ان میں سے کچھ خواتین اور بچے وہ ہیں، جنہیں حادثے کے فوری بعد حکومت کے ناکافی اقدامات کی وجہ سے نا انصافی کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ کچھ وہ ہیں جو موجودہ متاثرہ افراد کو کسی دوسری جگہ بسانے کی حکومتی پالیسی کی ناکامی پر برہم ہیں۔ فوکوشیما کے ارد گرد کے کئی علاقوں میں ابھی بھی تابکاری کی سطح اتنی بلند ہے کہ وہاں رہا نہیں جا سکتا۔ اس سلسلے میں جاپانی حکومت نے زندگی کو تیزی سے معمول پر لانے کے لیے جبری انخلا کے حکم نامے کو منسوخ کرتے ہوئے متاثرہ شہریوں کو ان کے علاقے میں واپس جانے کی اجازت دے دی ہے۔ ان نئی ہدایات پر رواں ماہ کے آخر سے عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔
تاہم اس صورتحال میں گرین پیس نے خبردار کیا ہے کہ تابکاری کی سطح ابھی بھی خطرناک ہے۔ گرین پیس نے ٹوکیو حکام پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ شہریوں کو تابکاری سے متاثرہ گھروں میں واپس لوٹنے پر مجبور نہ کرے۔
فوکوشمیا:چھ سال بعد بھی تابکاری
گیارہ مارچ 2011ء کے فوکوشیما جوہری حادثے کی وجہ سے بہت سے انسانوں کو تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان میں جاپانی شہری اور جوہری صنعت سے منسلک کچھ افراد شامل ہیں۔ کیا اب بھی اس پُر خطر ٹیکنالوجی کا کوئی مستقبل ہے؟
تصویر: UN Photo/IAEA/Greg Webb
فوکوشیما : جوہری بم سے زیادہ تابکاری
مارچ 2011ء: زلزلے اور سونامی کے بعد فوکوشیما کے جوہری مرکز میں حادثے کے باعث خارج ہونے والی تابکاری کی مقدار ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے پانچ سو گنا زیادہ تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Abc Tv
بھاری لاگت ، بے پناہ تابکاری
اس آفت سے بہت بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ جاپانی حکومت کے مطابق اس حادثے کی وجہ سے 21.5 ارب ین ( 177 ارب یورو ) کے اخراجات آئے جب کہ انسانوں کی تکلیف اور دیگر ممالک تک پہنچنے والی تابکاری کے نقصانات اس سے علیحدہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بحرالکاہل ابھی تک آلودہ
زلزلے اور سونامی کی وجہ سے فوکوشیما جوہری مرکز کے کولنگ نظام کو بہت شدید نقصان پہنچا تھا جس کے بعد سے مختلف ری ایکٹروں سے تابکاری کا اخراج شروع ہوا۔ اس دوران جوہری مرکز کے نیچے موجود پانی بھی آلودہ ہو گیا۔ اس میں پانی کی کچھ مقدار کو تو پمپوں کے ذریعے نکال لیا گیا تاہم اس آلودہ پانی کا کچھ حصہ بحرالکاہل میں بہہ گیا۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
تھائی رائیڈ یا غدود کے سرطان میں اضافہ
جاپان کی ایک طرح سے خوش قسمتی تھی کہ فوکوشیما حادثے کے فوری بعد چلنے والی تیز ہوائیں تابکاری کو سمندر کی جانب لے گئیں۔ اس کی وجہ سے ٹوکیو کے ارد گرد رہنے والے پچاس ملین شہری اس آفت سے محفوظ رہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق تاہم اس واقعے کے بعد تھائی رائیڈ کے سرطان میں مبتلا ہونے والے بچوں کی تعداد بیس گنا بڑھ گئی ہے۔
تصویر: Reuters
اکثریت جوہری ٹیکنالوجی کے خلاف
اس حادثے کے قبل جاپان میں 54 جوہری ری ایکٹرز کام کر رہے تھے اور آج فعال ری ایکٹرز کی تعداد صرف دو ہے۔ تاہم حکومت جوہری توانائی کے استعمال کے اپنے ارادوں پر قائم ہے اور چند ری ایکٹرز کو دوبارہ سے استعمال میں لانے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ ٹوکیو حکام کے ان منصوبوں کی راہ میں متاثرہ علاقوں کے شہری ابھی تک کامیابی کے ساتھ رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
تصویر: REUTERS
جوہری صنعت بھی بحران کا شکار
فوکوشیما سانحے کے بعد جوہری صنعت کو شدید نقصان پہنچا، جو مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ جاپان، امریکا اور فرانس میں جوہری کمپنیاں خسارے کا شکار ہیں۔ نئی جوہری پلانٹس خریدے نہیں جا رہے اور تعمیر کے نئے منصوبے بھی پس و پیش کا شکار ہیں۔
تصویر: Reuters
جوہری پلانٹس ’مفت‘
ایک وقت تھا جب جوہری مراکز کی تعمیر ایک منافع بخش کاروبار تھا۔ اس دوران زیادہ تر مراکز پرانے ہو چکے ہیں، ان کی حالت مخدوش ہے، انہیں فوری طور پر مرمت کی ضرورت ہے اور یہ خسارے کا بھی شکار ہیں۔ اس صورتحال میں سوئٹزرلینڈ کا جوہری ادارہ ’آلپگ‘ اپنے تینتس اور اڑتیس سالہ دو پرانے مراکز توانائی کی ایک فرانسیسی کمپنی کو تحفتاً دینے کی پیش کش کی۔ تاہم فرانسیسی کمپنی نے یہ پیش کش مسترد کر دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Seeger
جوہری حادثوں سے خوف
یورپی یونین اور سوئٹزرلینڈ میں آج کل 132جوہری مراکز کام کر رہے ہیں۔ ایک جوہری مرکز تیس سے پینتیس سال تک کارآمد رہ سکتا ہے۔ اب یہ جوہری مراکز اوسطاً بتیس سال کے ہو چکے ہیں۔ اس دوران ان میں خرابیوں، مرمت اور چھوٹے موٹے حادثوں کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ تاہم اس دوران عوام کی ایک بڑی تعداد کسی بڑے حادثے سے قبل ان جوہری مراکز کو بند کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
تصویر: DW/G. Rueter
چین کا جوہری توانائی پر انحصار
یورپی یونین، جاپان اور روس جہاں نئے جوہری مراکز تعمیر نہیں کر رہے وہیں چین جوہری توانائی پر اپنا انحصار بڑھا رہا ہے۔ چین کوئلے سے توانائی کے حصول کو ترک کرتے ہوئے جوہری توانائی استعمال کرنے کے اپنے منصوبوں پر قائم ہے۔ تاہم اس دوران بیجنگ حکومت نے قابل تجدید ذرائع سے توانائی کے حصول کے مختلف منصوبوں میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔
تصویر: Imago/China Foto Press
9 تصاویر1 | 9
جاپانی حکومت نقل مکانی کرنے والے افراد کو زر تلافی ادا کر رہی ہے اور ان افراد کے اپنے گھروں میں واپس لوٹنے کے ایک سال بعد علاقے کو محفوظ قرار دیتےہوئے ٹوکیو حکومت یہ رقم دینا بھی بند کر دے گی۔
گرین پیس کے مطابق جن خواتین نے تابکاری سے آلودہ علاقے چھوڑے ہیں، ان پر’’ نا فہم اوراعصابی مریض‘‘ کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے۔ ان خواتین کے مطابق حکومت کے خلاف مقدمے کا تعلق صرف مالی مدد یا زر تلافی سے نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد اخلاقی طور پر مطمئن ہونا بھی ہے۔ ایم ایس سونودا نامی ایک خاتون کے بقول،’’میں عدالت میں جانا چاہتی ہوں اور مجھے علم ہے کہ اپنے بچوں کو متاثرہ علاقے سے نکالنا میرا حق ہے۔‘‘ سونودا اپنے بچوں کو لے کر فوکوشیما سے انگلینڈ منتقل ہو گئی ہیں۔