1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوکوشیما کے جوہری پلانٹ سے زہریلے پانی کا اخراج جاری

شامل شمس7 اگست 2013

جاپان کے ایک حکومتی عہدیدار نے کہا ہے کہ ڈھائی برس قبل زلزلے اور سونامی سے متاثر ہونے والے فوکوشیما کے جوہری پلانٹ سے ہر روز تین سو ٹن ضرر رساں پانی سمندر میں داخل ہو رہا ہے۔

REUTERS/Kyodo
تصویر: Reuters

بدھ کے روز جاپان کے وزیر اعظم شِنزو آبے نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کی حکومت فوکوشیما کے جوہری پلانٹ سے تابکار مادے کے اخراج کو روکنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو مزید بہتر اور موثر بنائے گی۔ انہوں نے وزیر برائے معیشت، تجارت اور صنعت کو ہدایت کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی (ٹیپکو) فوکوشیما کے ایٹمی پلانٹ سے زہریلے پانی کے اخراج کو روکنے کے لیے کارروائی تیز کرے۔ ماہرین کے مطابق اس اخراج کو مکمل طور پر روکنے میں چالیس برس تک لگ سکتے ہیں اور اس پر گیارہ بلین ڈالر تک رقم خرچ کرنا پڑ سکتی ہے۔

آبے نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی حکومت اس حوالے سے کتنے فنڈز مختص کر رہی ہےتصویر: Reuters

جاپان کی وزارت برائے معیشت، تجارت و صنعت کا کہنا ہے کہ دسمبر تک وہ تابکار مادے کے اخراج کو کم کر کے ساٹھ ٹن فی روز تک لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

جاپانی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے براہ راست کارروائی کرے گی۔

خیال رہے کہ ڈھائی برس قبل جاپان کے علاقے فوکوشیما میں تباہ کن زلزلے اور سونامی کے باعث وہاں موجود ایٹمی پلانٹس میں دراڑیں پڑ گئی تھیں، جس کے بعد ان جوہری پلانٹس سے تابکار مادے کا اخراج شروع ہو گیا تھا۔ یہ پلانٹس بند کر دیے گئے ہیں تاہم بعض سے اب بھی تابکاری جاری ہے۔

فوکوشیما کے ایٹمی بحران کو چرنوبل کے جوہری سانحے کے بعد بدترین مانا جاتا ہے۔

منگل کے روز وزیر اعظم آبے نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے بلائے جانے والے ایک حکومتی اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’جاپانی عوام اس مسئلے کے حل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسی باعث ہمیں اس حوالے سے جلد اور موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ ہم صرف ٹیپکو پر انحصار نہیں کر سکتے۔ حکومت خود بھی کارروائی کرے گی۔‘‘

آبے نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی حکومت اس حوالے سے کتنے فنڈز مختص کر رہی ہے۔ یہ فنڈز فوکوشیما کے پلانٹ کے اطراف کی زمین کو منجمد کرنے کے لیے درکار ہوں گے، جس سے پانی کے رِسنے کے عمل کر روکا جا سکے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں