فٹبال: جرمن کوچ یوآخم لؤو کا مستعفی ہونا ضروری کیوں؟ تبصرہ
یوشا ویبر مقبول ملک
28 جون 2018
بطور عالمی چیمپئن اپنے اعزاز کا دفاع کرنے والی جرمن ٹیم ابتدائی راؤنڈ میں ہی امسالہ فیفا ورلڈ کپ سے باہر ہو گئی، جو گزشتہ نصف صدی سے بھی زائد عرصے میں جرمن فٹبال کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ ڈی ڈبلیو کے یوشا ویبر کا تبصرہ۔
اشتہار
مقابلہ کوئی بھی ہو، فتح کا عرصہ حیات محض ایک لمحہ ہی ہوتا ہے۔ جو گزرے ہوئے کل کا عظیم کھلاڑی تھا، وہ اگر آج بھی عظیم نہیں اور متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا، تو وہ کسی بھی مقابلے کا کوئی قابل ذکر شرکت کنندہ بھی نہیں ہو سکتا۔
روس میں جاری امسالہ فیفا ورلڈ کپ میں دفاعی ورلڈ چیمپئن ٹیم جرمنی کا گروپ میچوں کی سطح پر ہی ان عالمی مقابلوں سے خارج ہو جانا ذاتی طور پر جرمن ٹیم کے کوچ یوآخم لؤو کی آج تک کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اب لؤو کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے تاکہ وہ راہ ہموار ہو سکے جو آج کے دن کو آنے والے کل سے جوڑتی ہے اور حال کو مستقبل سے ملاتی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ کہیں، کیوں؟ اتنا جذباتی ہونے کی بھی کیا ضرورت ہے کہ یوآخم لؤو مستعفی ہو جائیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جرمنی روس میں کھیلے جا رہے فیفا ورلڈ کپ سے باہر ہو جائے گا، یہ بات تقریباﹰ نوشتہ دیوار بن چکی تھی۔
ہر کسی کو خدشہ یہی تھا کہ بس ایسا ہونے ہی والا ہے۔ وجہ اس ٹورنامنٹ میں جرمن ٹیم کی کارکردگی تھی، اور وہ بھی ایسی کہ ایک عالمی چیمپئن ٹیم ایسے فٹبال کھیلے کہ اس کا اپنا ہی سایہ اس کے رستے کی رکاوٹ بن جائے۔
دفاعی چیمپیئن جرمنی کی مایوس کن شکست
جنوبی کوریا نے جرمنی کو شکست دے کر اسے فیفا فٹبال ورلڈ کپ سے باہر کر دیا ہے۔
تصویر: Getty Images/Bongarts/C. Koepsel
جرمن شائقین کے لیے بھی انتہائی مایوس کن
روسی شہر کازان میں کھیلے گئے گروپ ایف کے اہم میچ میں جرمن ٹیم کی شکست دنیا بھر میں جرمن ٹیم کے شائقین کے لیے بھی انتہائی مایوسی کا باعث بنی۔
تصویر: Reuters/P. Olivares
2014ء کا چیمپیئن
جرمنی نے 2014ء میں برازیل میں کھیلے جانے والے فیفا فٹبال ورلڈ کپ کے فائنل میں ارجنٹائن کو صفر کے مقابلے میں ایک گول سے شکست دی تھی۔ اس طرح جرمنی چوتھی بار فٹبال کے عالمی کپ کا فاتح قرار پایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Gebert
جنوبی کوریا کا پہلا گول
جرمنی اور جنوبی کوریا کا میچ آخری منٹوں تک برابر رہا تاہم جنوبی کوریا کے کھلاڑی کِم یَنگ گون نے ایک شاندار گول کر کے اپنی ٹیم کو برتری دلا دی۔
تصویر: Reuters/P. Olivares
لائن ریفری کی طرف سے آف سائیڈ
لائن ریفری کی طرف سے کِم یَنگ گون کو ابتداء میں آف سائیڈ قرار دے دیا گیا تھا تاہم ویڈیو ریوو کے بعد ریفری نے جنوبی کوریا کے حق میں فیصلہ دے دیا اور یوں جنوبی کوریا نے ایک صفر کی برتری حاصل کر لی۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
جرمن گول کیپر بھی جنوبی کوریا کے ڈی میں
دوسرا گول جرمن ٹیم اور جرمن فٹبال شائقین کے لیے بھی انتہائی مایوس کُن ثابت ہوا جب جرمنی کے گول کیپر مانویل نوئر اپنی ٹیم کی مدد کے لیے جنوبی کوریا کی ڈی میں پہنچے ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
فیصلہ کن برتری
جنوبی کوریا کے فارورڈ سَن ہونگ مِن نے انتہائی آسانی کے ساتھ جرمنی کے خلاف دوسرا گول کر کے اپنی ٹیم کی کامیابی کو یقینی بنا دیا۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
6 تصاویر1 | 6
جرمن ٹیم نے اس ورلڈ کپ میں اپنے تین میچوں سمیت ان مقابلوں سے پہلے بھی مجموعی طور پر گزشتہ سات ماہ میں جتنے بھی میچ کھیلے، ان سب میں یہ ٹیم کسی بھی طرح کی متاثر کن کارکردگی دکھانے اور کھیل میں جدت اور انتھک جذبے سے محروم ہی نظر آئی۔
جرمنی نے اس ورلڈ کپ کے لیے جس گروپ سے کوالیفائی کیا تھا، اس میں اس کا درحقیقت کوئی بڑا حریف موجود ہی نہیں تھا۔ اس کے بعد نومبر 2017ء سے اس ٹیم نے جو میچ کھیلے، ان میں سے تین ڈرا ہوئے، دو میں اسے ناکامی ہوئی اور صرف ایک میچ ہی جیتا جا سکا، وہ بھی خوش قسمتی سے۔ لیکن کس کے خلاف؟ سعودی عرب کے خلاف، جو فٹبال کی عالمی درجہ بندی میں دنیا کی 67 ویں نمبر کی ٹیم ہے۔
جرمنی نے فیفا ورلڈ کپ میں جو تین میچ کھیلے، ان میں سے صرف ایک میں اسے بمشکل کامیابی ملی اور دو میں سبق سکھا دینے والی شکست ہوئی۔ اب جب کہ جرمنی موجودہ ورلڈ کپ مقابلوں سے خارج ہو چکا ہے، یہ کوئی اچانک آنے والی تبدیلی نہیں بلکہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے مزید نیچے جایا ہی نہیں جا سکتا۔ یہی بہتر ہے۔ تاکہ مسلسل زوال کے بعد کسی ایسی جگہ پہنچا جا سکے، جہاں سے دوبارہ عروج کی کہانی اور کامیابی کا سفر شروع کیا جا سکے۔
یوآخم لؤو کو اب جرمنی کی قومی فٹبال ٹیم کے کوچ کی حیثیت سے اپنی ذمے داریوں سے اس لیے دستبردار ہو جانا چاہیے کہ وہ اپنے وہ تمام تر وسائل اور امکانات استعمال کر چکے ہیں، جو وہ کر سکتے تھے۔ اب یہ بات مشکل معلوم ہوتی ہے کہ جرمنی میں قومی فٹبال ٹیم کے کامیاب ترین کوچ پر یہ الزام لگایا جائے کہ وہ اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
2006ء سے لے کر اب تک کے 12 برسوں میں لؤو نے جرمن ٹیم کی بڑی بڑی کامیابیوں میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ اس مرتبہ وہ جرمن ٹیم کو کامیابی کے لیے کافی ثابت ہونے والی تحریک دلانے میں ناکام رہے۔ جہاں تک لؤو کا تعلق ہے، تو اب وہ وقت نہیں کہ کہا جائے، ’’محنت کرتے رہو، اسی طرح۔‘‘
جرمن ٹیم کو اب ایک نئے آغاز کی ضرورت ہے۔ صرف کوچ کی سطح پر ہی نہیں بلکہ کھلاڑیوں کی سطح پر بھی۔ جرمن فٹبال فیڈریشن کے لیے یہ جیسے شام کا وقت ہے۔ لیکن ہر شام کے بعد ایک نئی صبح بھی ہوتی ہے۔
فٹ بال ورلڈ کپ اور چند دلچسپ حقائق
فٹ بال کے اکیسویں عالمی کپ کی میزبانی اس برس روس کے سپرد ہے جہاں 14 جون سے 15 جولائی تک دنیا کی بہترین ٹیموں کے درمیان میچز کھیلے جائیں گے۔ فیفا ورلڈ کپ کے حوالے سے چند دلچسپ معلومات جانیے اس پکچر گیلری سے۔
اس برس بھی عالمی کپ حاصل کرنے کے لیے 32 ٹیمیں مد مقابل آئیں گی۔ ان میں آئس لینڈ اور پاناما کی ٹیمیں پہلی بار کولیفائی کرتے ہوئے حصہ لے رہی ہیں۔ سن 2026 میں فٹبال ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی ٹیموں کی تعداد 48 کر دی جائے گی۔
جرمنی ورلڈ کپ کے گزشتہ تین ٹورنامنٹس میں سب سے زیادہ گول کرنے والی ٹیم رہی ہے۔ جرمن فٹ بال ٹیم 2014ء میں اٹھارہ، 2010ء میں سولہ اور 2006ء میں چودہ گولز کے ساتھ سرفہرست رہی۔
تصویر: Imago/ActionPictures/P. Schatz
دنیا کی نصف آبادی کی دلچسپی
اعداد و شمار اکھٹا کرنے والے ایک ادارے کے مطابق فٹ بال کے اس برس عالمی کپ کو صرف ٹی وی پر ہی دیکھنے والوں کی تعداد 3.2 بلین ہو گی، جو دنیا کی تقریباﹰ نصف آبادی کے برابر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ایران کے لیے سنگ میل
ایران اس برس پہلی بار متواتر دوسری مرتبہ عالمی کپ کھیلے گا۔
تصویر: Mehr
سب سے چھوٹا ملک
آئس لینڈ اس ورلڈ کپ میں کوالیفائی کرنے والا دنیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔
تصویر: picture-alliance/Back Page Images
دو براعظموں میں میچز
یہ پہلی بار ہو گا جب فٹ بال ورلڈ کپ کے میچ دو بر اعظموں، یورپ اور ایشیا میں کھیلے جائیں گے۔ اب کے عالمی مقابلوں میں سب سے کم درجہ بندی روس (65) اور سعودی عرب ( 63) کی ہے۔
تصویر: Reuters/D. Staples
64 میچز
ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس ٹورنمنٹ میں کُل 64 میچ کھیلے جائیں گے جیسے دیکھنے کے لیے اندازاﹰ دس لاکھ سے زائد غیر ملکی روس کا رخ کریں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Antonov
جیتنے والی ٹیم کو انعام
اس برس عالمی چیمپئین کا تاج سر پر سجانے والی ٹیم کو 3.8 ملین ڈالر کی انعامی رقم دی جائے گی۔ دوسرے نمبر پر آنے والی ٹیم کو 2.8 ملین ڈالر کی انعامی رقم کی حقدار قرار پائے گی۔