یونان میں ایک رضاکار گروپ نے مہاجرین کو فٹ بال کی جانب مائل کرنے کے لیے ایک تحریک شروع کر دی ہے۔ شمالی یونانی علاقے سالونیکی میں موجود مہاجر اب ہر جانب فٹ بال کھیلتے نظر آتے ہیں۔
اشتہار
ایک ایسے وقت میں جب دنیا عالمی کپ فٹ بال کے فائنل کی منتظر ہے، شمالی یونانی علاقے سالونیکی میں رضاکاروں کا ایک گروپ مہاجرین کو فٹ بال کھلا رہا ہے۔
23 سالہ شامی مہاجر سلیمان، دمشق میں ایک پیشہ ور فٹ بالر تھا۔ وہ الواحدہ کلب کے لیے کھیلا کرتا تھا۔ یہ کلب شام میں سب سے زیادہ پرانے فٹ بال کلبوں میں شامل ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے سلیمان نے کہا، ’’ہم تب سے فٹ بال کھیل رہا ہوں، جب میں صرف چھ برس کا تھا۔ میں دس سال سے الواحدہ کے ساتھ جڑا مگر پھر مجھے فٹ بال کو خیرباد کہنا پڑا، کیوں کہ شام میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔‘‘
سلیمان سن 2016 میں یونان پہنچا اور ابتدا میں قریب چار ماہ وہ مقدونیہ کی سرحد پر واقع شامی علاقے ایڈومینی میں رہتا رہا۔ بعد میں اس نے سالونیکی کے علاقے کا انتخاب کیا او وہاں منتقل ہو گیا، کیوں کہ بہقول اس کے یہ علاقے اسے کے گھر کی یاد دلاتا ہے۔ اسی شہر میں سلیمان نے ایک غیر سرکاری تنظیم کے لیے بہ طور مترجم کام کرنا شروع کیا اور پھر اسے رضاکاروں کی ایک فٹ بال سے متعلق تحریک انیکو کی بابت معلوم ہوا۔
سلیمان نے بتایا، ’’میں اس این جی او کے ساتھ کام کرتا تھا، جو انیکو کی مدد کر رہی تھی۔ جو وہ کر رہے تھے، مجھے وہ اچھا لگا۔ یعنی آپ مزہ کر رہے ہیں، تربیت لے رہے ہیں اور نئے لوگوں سے مل رہے ہیں۔‘‘
یونانی زبان میں انیکو کا مطلب ہے، جڑا ہوا۔ ڈین تیوما اور جیس جانسن نے فرانسیسی شہر کَیلے میں بہ طور رضاکار اس تحریک کا آغاز کیا تھا اور پھر سن 2015 کے موسم گرما میں یہ تحریک یونان منتقل کر دی گئی۔ یہ تحریک لیسبوس اور سالونیکی کے علاقے میں مہاجرین میں فٹ بال کھیلنے کی رغب پیدا کرتی ہے اور انہیں تربیت دیتی ہے۔ اس تحریک کا نعرہ ہے کہ فٹ بال کے ذریعے مہاجرین کا یونانی معاشرے میں انضمام آسان ہے۔ سن 2016 کے موسم خزاں سے تھومس فارینیس بہ طور کوچ انیکو کے لیے بہ طور کوچ کام کر رہے ہیں۔
ترکی میں شامی مہاجرین کے لیے انضمام کے مسائل
شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث اپنے آبائی وطن کو ترک کر کے تُرکی آنے والے شامی مہاجرین کے لیے یہاں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ترک زبان میں مہارت اور مناسب ملازمتیں حاصل کرنا بڑے مسائل ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسکول سے باہر جھانکتا شامی بچہ
ایک بچہ جنوبی ترکی میں قائم نزپ 2 نامی مہاجر کیمپ میں ایک اسکول سے باہر جھانک رہا ہے۔ یہ کیمپ رہائش کے بین الاقوامی معیار کا حامل ہے تاہم کچھ شامی مہاجرین اب بھی سماج سے کٹ کر ہی رہنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
توقع سے زیادہ بہتر
سن 2012 میں دریائے فرات کے کنارے تعمیر کیے گئے نزپ2 کیمپ میں صحت اور مفت تعلیم کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں رہنے والوں کے لیے سپر مارکیٹیں بھی بنائی گئی ہیں۔ نزپ2 میں فی الحال 4.500 شامی مہاجرین قیام پذیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
چالیس فیصد شامی مہاجر بچے تعلیم سے محروم
ترکی کی نیشنل ایجوکیشن کی وزارت کے مطابق اسکول جانے کی عمر کے قریب 40 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ نزپ2 جیسے مہاجر کیمپوں میں ہر عمر کے طالبعلم بچوں کو عربی، انگریزی اور ترک زبانوں میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
برادری کے ساتھ زیادہ محفوظ
نزپ2 میں انگریزی کے استاد مصطفی عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شامی بچوں کے لیے کیمپ سے باہر نکلنا اچھا ہے کیونکہ اُن کی ترکی زبان سیکھنے کی رفتار بہت آہستہ ہے۔ تاہم وہ کیمپ میں اپنی برادری کے ساتھ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے اہم ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ترکی اور شامی مہاجر بچوں کی دوستی
اقتصادی اور سماجی پناہ گزین انضمام کے ماہر عمر کادکوے کا کہنا ہے کہ شامی اور ترک بچوں کے درمیان بات چیت سماجی تناؤ کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’ترک زبان سیکھنا اتنا بھی مشکل نہیں‘
ترک معاشرے میں شامی مہاجرین کے لیے زبان کی مشکلات اپنی جگہ، لیکن اس کے باجود اس مقصد میں کامیاب ہونے والوں کی کہانیاں بھی ہیں۔ سترہ سالہ ماہر اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایک سال سے ترکی سیکھ رہا ہے اور یہ اتنا مشکل بھی نہیں۔ اسماعیل ستر فیصد ترکی سمجھ سکتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مناسب روز گار کی تلاش
ترکی میں رہنے والے شامی مہاجرین عمومی طور پر بے روز گار ہیں۔ زیادہ تر کو سخت محنت والے شعبوں میں کم درجے کی ملازمتیں مل جاتی ہیں باقی ماندہ اپنی ذاتی کاروباری کمپنیاں کھول لیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
12 گھنٹے روزانہ کی شفٹ
چوبیس سالہ قہر من مارش ہفتے میں سات دن روزانہ 12 گھنٹے کی شفٹ پر ایک کباب شاپ پر ملازمت کرتا ہے، جہاں سے اسے مہینے میں ایک ہزار لیرا ملتے ہیں۔ مارش کا کہنا ہے کہ وہ اسکول جانا چاہتا ہے لیکن اُس کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ اُس کے والدین اُس کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
گھر جانے کو بیتاب
نزپ2 مہاجر کیمپ کے باسیوں کے ذہن میں ایک خیال ہر وقت رہتا ہے کہ گھر کب جائیں گے۔
سترہ سالہ محمد حاجی(بائیں) جو 35 لیرا یومیہ پر پھل اور سبزیاں چنتا ہے، کا کہنا ہے کہ اسکول جانے کا تو سوال ہی نہیں کیونکہ وہ اپنے گھر شام جانا چاہتا ہے۔ ستاون سالہ زکریا ارید( دائیں) شام میں اپنے شہر رقہ کے جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے آزاد ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہریت کا سوال
شامی مہاجر خاتون آیوش احمد جو تصویر میں نظر نہیں آرہی ہیں، نے اپنی دو پوتیوں میں سے ایک کو گود میں لیا ہوا ہے۔ آیوش احمد کیمپ میں قریب 5 برس سے مقیم ہیں۔ اُن کی دونوں پوتیاں اسی کیمپ میں رہائش کے دوران پیدا ہوئی ہیں۔ آیوش احمد کا کہنا ہے،’’ اگر ہم ترکی میں رہے تو میری پوتیوں کی شہریت ترک ہو جائے گی اور اگر شام چلے گئے تو وہ شامی شہریت کی حامل ہوں گی۔
تصویر: DW/D. Cupolo
10 تصاویر1 | 10
اس کلب کے شریک بانی تیوما کے مطابق، ’’فٹ بال پل کا کردار ادا کرتا ہے اور امن کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔ جب میں انگلیڈ سے جبل الطارق منتقل ہوا، تو ایک طرح سے میں غیرملکی سا تھا۔ یہاں فٹ بال میرے لیے ایک طرح سے انضمام کا باعث بنا۔ تو میں نے سوچا کہ اگر فٹ بال میری مدد کر سکتا ہے۔ تو پھر اس سے دیگر افراد کے انضام میں بھی مدد لی جا سکتی ہے۔
اب یہ تحریک ماہانہ بنیادوں پر ایک تقریب منعقد کرتی ہے، جو شہر کے تمام افراد کے لیے کھلی ہوتی ہے۔ اس تحریک کے مطابق اس طرح شہر بھر سے آنے والے مختلف اور خصوصاﹰ متحرک افراد ان تارکین وطن سے آن ملتے ہیں۔