دوسری عالمی جنگ کے بعد کے دور میں جرمن خواتین کو فٹ بال کھیلنے کے حوالے سے مختلف پابندیوں کا سامنا تھا۔ تاہم 1970ء کی دہائی میں حالات تبدیل ہونا شروع ہوئے۔ ایک سابقہ جرمن فٹ بال کھلاڑی اس وقت کو کیسے یاد کرتی ہیں؟
اشتہار
فٹ بالر بیربل وہول لیبن کی عمر پچھتر برس ہے۔ انہیں آج بھی 1974ء کا وہ لمحہ یاد ہے، جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا تھا کہ جب آپ بال کو ہیڈ کرتی ہیں تو وہ بالوں میں تو نہیں الجھتی؟
اُس وقت وہول لیبن ابھی تیس برس کی تھیں اور انہیں فٹ بال کا اپنا کیریئر شروع کیے صرف تین سال ہی ہوئے تھے۔ کیونکہ 1971ء تک جرمن فٹ بال فیڈریشن ( ڈی ایف بی) نے ٹورنامنٹس میں خواتین کے حصہ لینے پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ اگر اُس دور میں کوئی فٹ بال کلب خواتین کو تربیت دینے یا کھیلنے کی اجازت دیتا تھا تو اسے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
1955ء کے ڈی ایف بی کے ایک فرمان کے مطابق، ’’یہ جارحانہ کھیل خواتین کی فطرت کے مطابق نہیں۔ بال کے حصول کی لڑائی میں خواتین کا نسوانی وقار مجروح ہوتا ہے، روح اور جسم کو ناگزیر طور پر نقصان پہنچتا ہے۔‘‘
اس کے علاوہ خواتین کا نیکر پہن کر فٹ بال کھلینا بھی جرمن فٹ بال فیڈریشن کے لیے ایک مسئلہ تھا، ’’جسم کی نمائش سلیقے اور حیا کو ٹھیس پہنچاتی ہے‘‘۔
تاہم ان قوانین کے باوجود بیریل وہول لیبن فٹ بال کھیلتی رہیں۔ دس برس کی عمر میں یعنی یانچ جولائی 1954ء کو انہوں نے پہلی مرتبہ فٹ بال کو کک لگائی تھی۔ یہ وہ دن تھا جب مغربی جرمنی نے پہلی مرتبہ فٹ بال کا عالمی کپ جیتا تھا۔
بیرن سوئٹزرلینڈ میں کھیلے گئے اس فائنل میچ میں جرمنی نے ہنگری کو تین دو سے شکست دی تھی۔ وہول لیبن اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’پڑوسیوں نے ہمیں دعوت پر بلایا تھا اور اس روز پہلی مرتبہ میں نے ٹیلی وژن دیکھا تھا۔ جیتنے کے بعد ہم پاگلوں کی طرح خوشیاں منا رہے تھے اور اس موقع پر میں نے کہا کہ مجھے فٹ بال کھیلنی ہے۔‘‘
اس کے بعد اگلے چار برسوں تک وہ اسی کلب میں فٹ بال کھیلتی رہیں، جس میں ان کے تینوں بھائی کھیلتے تھے۔ پھر سماجی مسائل کی وجہ سے انہیں اس کھیل کو خیر باد کہنا پڑا۔
وہ ستائیس سال کی عمر تک ہینڈ بال کھیلتی رہیں۔ بیریل وہول لیبن کبھی بھی ایک بین الاقوامی کھلاڑی نہیں بن سکیں کیونکہ جب مغربی جرمنی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے 1982ء میں سوئس ٹیم کو شکست دے کر پہلی مرتبہ خود کو منوایا تھا، تو اس وقت وہ فٹ بال چھوڑ چکی تھیں۔
1974ء میں جرمنی میں پہلی مرتبہ وومن فٹ بال چیمپئن شپ منعقد ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا،’’وہ ایک مختلف وقت تھا۔1977ء تک کسی بھی جرمن خاتون کو اپنے شوہر کی تحریری اجازت کے بغیر کام کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔‘‘
اب جرمن خواتین کی فٹ بال کے میدان میں ایک جانی مانی ٹیم ہے۔ عالمی رینکنگ میں جرمن وومن ٹیم پہلے نمبر پر بھی رہی جبکہ 2018ء میں یہ دوسرے نمبر پر تھی۔
دنیا کی دس بہترین خاتون فٹ بالر کون ہیں
دنیا کی دس بہترین خواتین فٹ بالر کون ہیں؟ آئیے ملیے ان غیرمعمولی کھلاڑیوں سے۔
تصویر: Imago/foto2press/S. Leifer
ایڈا ہیگربرگ، ’سنہری اسٹرائیکر‘
ناورے کی اسٹرائیکر کو گزشتہ برس بہترین خاتون فٹ بالر قرار دیا گیا تھا۔ ایوارڈ وصول کرتے ہوئے 23 سالہ ایڈا ہیگربرگ نے نوجوان لڑکیوں کو ایک متاثرکن پیغام دیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’خود پر بھروسا کیجیے۔‘‘ ہیگربرگ نے اب تک ڈھائی سو گول کیے ہیں اور تین مرتبہ چیمپیئنز لیگ میں فتح حاصل کی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے چار فرانسیسی لیگ ٹائٹل بھی اپنے نام کیے ہیں۔
تصویر: Reuters/G. Garanich
پیرنیل ہارڈر، ’بہترین فنشر‘
2017 کے یورپی ویمن کپ کے فائنل میں ڈنمارک کی اسٹرائیکر پیرنیل ہارڈر نے دائیں جانب سے ہالینڈ کی کھلاڑیوں کو ڈاج کرتے اور دفاعی لائن توڑتے ہوئے گول کیا تھا، جس سے ہالینڈ کی برتری ختم ہو گئی تھی۔ ویمن بنڈس لیگا میں جرمن کلب وولفس برگ کی ٹاپ اسکورر پیرنیل ہارڈر کو یوایفا ویمن پلیئر آف دی ایئر 2017-18 کا ایوارڈ بھی ملا تھا۔
تصویر: Reuters/Y. Herman
وینڈی رینارڈ، ’اچھاحملہ ہی بہترین دفاع ہے‘
وینڈی رینارڈ اولمپک لیوں نامی کلب کے علاوہ فرانس کی قومی ٹیم میں بھی شامل ہیں۔ اپنی زبردست دفاعی ہنرمندی کے علاوہ ہیڈر کے ذریعے گول کرنے کی ماہر کہلانے والی رینارڈ بارہ مرتبہ فرنچ ٹائٹل جیت چکی ہیں جب کہ چیمپیئنز لیگ کا فائنل بھی پانچ دفعہ ان کے نام ہوا۔ رینارڈ کو دنیا کی بہترین خاتون ’ڈیفنڈرز‘ میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Jonathan Nackstrand
لوسی برونز، سخت ترین دفاع
اولمپک لیوں کلب کی ڈیفنڈر لوسی برونز نے سن 2018ء میں اپنے سابقہ کلب مانچسٹر سٹی کے خلاف عمدہ کارکردگی دکھائی۔ سیمی فائنل میں انہیں یوایفا گول آف دا سیزن کے لیے نام زد کیا گیا۔ برونز کو دنیا کی بہترین خاتون فٹ بالرز میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ رواں برس خواتین کے عالمی کپ میں وہ انگلینڈ کی اہم کھلاڑیوں میں سے ایک تصور کی جا رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/N. Baker
مارٹا وی ایرا ڈی سِلوا، ’میں پیدا ہی اس ہنر کے استعمال کے لیے ہوئی‘
دی پلیئرز ٹریبیون میں اپنے ایک مضمون میں انہوں نے لکھا، ’’ہر تفریق سے لڑائی، ہر عدم معاونت سے لڑائی، ان سب لڑکوں اور دیگر سے لڑائی، جو کہتے ہیں مارٹا، یہ تمہارے بس کی بات نہیں۔‘‘ مارٹا نے برازیل کے لیے 133 میچوں میں 110 گول کیے۔ مارٹا کو دنیا کی بہترین خاتون کھلاڑی اور بہت سی نوجوان لڑکیوں کے لیے ایک مثالیہ قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
جینیفر ماروشان، اکھڑتے سانس سے جنگ
گزشتہ برس جنوری میں جرمنی کی سابق کپتان اور اولمپک لیوں کی مڈفیلڈر کو پھیپھڑوں میں انجماد خون کے مسئلے نے آن لیا۔ مگر وہ اکتوبر تک یہ لڑائی جیت کر دوبارہ میدان میں اتر چکی تھیں۔ اس کے ایک ماہ بعد انہوں نے دوبارہ جرمنی کی قومی ٹیم میں اپنی جگہ بنا لی۔
تصویر: picture-alliance/GES/T. Eisenhuth
v
فرانس کی قومی ٹیم اور فٹ بال کلب لیوں کی کھلاڑی امانڈین ہینری کھیل رہی ہوں تو وہ منفرد دکھائی دیتی ہیں۔ ایسا لگتا ہی نہیں کہ ان سے بچ کو کوئی بال دفاعی کھلاڑیوں تک پہنچے گا۔ دفاع کو حملے میں بدلنا امانڈین کی انفرادیت ہے۔ انہیں دنیا کی ٹاپ فٹ بالرز میں سے ایک گردانا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/V. Ogirenko
سمانتھا کیر، منفرد جشن
سمانتھا کیر کو امریکا کی نیشنل ویمن سوکر لیگ میں پچاس گول کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ کیر نے آسٹریلیا میں قومی فٹ بال ٹیم میں تب اپنی جگہ بنائی تھی، جب ان کی عمر فقط پندرہ برس تھی۔ تب سے وہ فیفا رینکنگ میں سب سے اوپر دکھائی دینے والے ناموں میں نظر آتی ہیں۔ وہ رواں برس کے خواتین کے عالمی کپ فٹ بال میں بھی شریک ہو رہی ہیں۔ وہ ہر گول پر جشن اپنے ہی ایک خاص طریقے سے مناتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G. Denholm
میگن راپینوئے، ایک فاتح
میگن کی مدد سے امریکا سن 2018ء میں شی بیلیوز کپ، سن 2015 کا عالمی کپ اور سن 2012 کا اولمپک گولڈ میڈل جیتا تھا۔ سیاٹل رین کلب کی کپتان میگن نے سن 2017ء میں 18 میچوں میں بارہ گول کیے۔ یہ 33 سالہ کھلاڑی بہت سی لڑکیوں کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/R. Martinez
ساکی کوماگائی، جاپانی ستارہ
جاپانی فٹ بال ٹیم کی کپتان اولمپک لیونیز کلب کے لیے پانچ فرنچ چیمپیئن شپس اور تین چیمپیئن لیگ ٹائٹل جیتنے میں اپنا کردار ادا کر چکی ہیں۔ کوماگائی کا زبردست دفاعی کھیل ہی تھا، جس نے جاپان کو سن 2018ء میں ویمن ایشیا کپ جیتنے میں مدد دی تھی۔ کوماگائی کو فیفا بیسٹ ویمن پلیئر کے ایوارڈ کے لیے بھی نام زد کیا جا چکا ہے۔