1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فٹ بال صرف رونالڈو اور بیکھم کا کھیل نہیں رہا

ZQ/NS13 اگست 2008

فٹ بال ایک ایسا کھیل ہےجس کا نام لیتے ہی مرد کھلاڑی ذہن میں آتے ہیں مثلاً بیکھم ،رونالڈو اور میشائیل بالاک۔۔۔

تصویر: Picture-Alliance /dpa

جنوبی ایشیائی ممالک میں کچھ عرصے پہلے تک یہی تاثرعام تھا کہ خواتین فٹ بال کھیلتی ہی نہیں ہیں۔تا ہم اس وقت دنیا میں پچیس سے زیادہ وومن فٹ بال ٹیمیں موجود ہیں لیکن خواتین کھلاڑی اچھی کارکردگی کے باوجود اتنی مقبول نہیبں ہیں جتنا کہ مرد کھلاڑی، اور نہ ہی انہیں مردوں کی طرح ملین یوروز کے کانٹریکٹ ملتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ایسا نظر آرہا ہے کہ چند برسوں کے بعدمعاملہ کچھ مختلف ہو گا۔

اس وقت جرمنی، امریکہ ، ناروے، چین اور برطانیہ کی خواتین فٹبال ٹیموں کا شمار دنیا کی بہترین ٹیموں میں ہوتا ہے۔ جرمن ٹیم عالمی مقابلوں میں متواتر جیت سے ہمکنار ہوئی ہے۔ دو ہزار تینء میں جب جرمن ٹیم فٹ بال ورلڈ کپ میں کامیاب ہوئی تو اس وقت سے جرمنی میں فٹ بال صرف مردوں کا کھیل نہیں رہا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ بیجنگ میں جاری اولمپکس مقابلوں میں بھی جرمن فٹبال ٹیم فائنل تک ضرور پہنچے گی۔

جرمنی میں جاری بین القوامی تربیتی کیمپ:جرمنی کے شہر Leipzig میں خواتین فٹ بال پلیئرزکے لئیے ایک بین القوامی ٹریننگ کیمپ کا اہتملم کیا گیا ہے۔ اس کیمپ میں ٹریننگ صبح نو بجے شروع ہوتی ہے ۔ چھ مختلف ممالک سے آئی ہوئی چھبیس خواتین کھلاڑی سٹیڈیم کے چکر لگا کر ٹریننگ کا آغاز کرتی ہیں۔ ان سب پر نظر رکھنا آسان نہیں ، Heinrich Sobottka کو بھی خواتین کو پہچاننے میں مشکل پیش آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف اردن سے آئی ہوئی ایک عرب لڑکی ہے جو سب سے مختلف نظر آتی ہے اور Heinrich اسے آسانی سے پہچان لیتے ہیں۔ اس کی پہچان اس کا ’ہیڈ سکارف‘ ہے جسے وہ کھیل کے دوران اور کھیل کے بعد بھی پہنے رکھتی ہے۔’’ اس کے سکارف پہننے پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ بلکہ اس طرح مجھے آسانی سے پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کون ہے اور اس کا تعلق کس ملک سے ہے ۔‘‘

ڈنمارک کی پندرہ سالہ فٹ بال کھلاڑی زینب الخطیبتصویر: privat

ہیڈ سکارف یا ہیڈ سکارف کے بغیر، فٹ بال کیمپ میں کسی بات کو مسئلہ نہیں بنایا جاتا ہے۔ اس تربیتی کیمپ کو ممکن بنانے میں Hienrich نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ اس تربیتی کیمپ کے ٹرینر بھی ہیں۔ انہوں نے تمام خواتین کو یہاں آنے کے دعوت نامے جاری کئیے تھے۔

جس کے نتیجے میں اردن، الجزائر، ناروے، سربیا، ترکی اور جرمنی کی خواتین کھلاڑی اس تربیتی کیمپ میں حصہ لے رہی ہیں۔ گزشتہ منگل سے یہ سب مل کر ٹریننگ کر رہی ہیں اورانہیں ایک دوسرے کو جاننے کا موقع بھی مل رہا ہے۔

انیس سالہ نارویجین Hilda اپنی کلب ٹیم میں اٹیکرکی پوزیشن پر کھیلتی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ کھیل کے میدان میں بات چیت بہت اہم ہے۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیل کےمیدان اور باہر رابطے میں رہنا بہت ضروری ہے۔

وہ کہتی ہیں:’’میں فیلڈ میں بھی بہت باتیں کرتی ہوں اور فیلڈ کے باہر بھی۔ اس سے آپکی گیم آسان ہو جاتی ہے۔ اگر آپ فئیر ہیں تو آپ فٹ بال گراؤنڈ میں بھی فئیر ہوں گے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ روزمرہ زندگی میں آپ جس طرح کی شخصیت رکھتے ہیں وہ آپ کےکھیل میں بھی نظر آتی ہے۔‘‘

افغانستان کی قومی وومن فٹ بال ٹیمتصویر: picture-alliance/ dpa

کیا کھیل کا میدان معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتا ہے؟: ایک ایسے زمانے میں جہاں فٹ بال پلیئرملین یوروز سالانہ کماتے ہیں یہ ماننا تھوڑا مشکل ہے۔تاہم خواتین کے فٹ بال کی دنیا ذرا مختلف نظر آتی ہے۔ زیادہ تر لڑکیاں پیسے کمانے کے لئے نہیں بلکہ شوق کی خاطر کھیلتی ہیں۔ اس کی ایک مثال الجزائر سے آئی ہوئی Radia Zhemor ہے۔ تیس سالہ یہ کھلاڑی دس سال سے اپنی ٹیم کے لئے دفاعی پوزیشن میں کھیل رہی ہیں ۔’’شروع میں مجھے لگتا تھا کہ میں اس کیمپ میں صرف فٹ بال کھیلنے آئی ہوں لیکن اب میں ایسا نہیں سوچتی۔ کل ہم مختلف ممالک سے آئی ہوئے لوگوں کے ساتھ گھوم پھر رہے تھے۔ ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے کے لئیےاور ایک دوسرے کی ثقافت کو سمجھنے کے لئیے زبان ڈھونڈ نی پڑی۔ اب میں سمجھتی ہوں کہ ہم یہاں صرف فٹ بال کھیلنے نہیں آئے۔ میں بہت خوش ہوں کہ مجھےیہاں مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا ہے ۔‘‘

زبان اور ثقافت سے بالاتر کھیل:شام میں اکھٹے بیٹھ کرمختلف موضوعات پر بات چیت کرنے یا پھر باہر کسی ٹرپ پر جانے سے ایک دوسرے کو بہتر طور پر جاننے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن جو چیز سب سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے وہ ہے فٹ بال۔ Heinrich کہتے ہیں کہ فٹ بال زبانوں اور ثقافتوں کی تفریق سے بالاتر ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے مختلف ممالک کے کھلاڑی ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔


فٹ بال سے بین الثقافتی روابط پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ پندرہ اگست کو اس تربیتی کیمپ کے اختتام پر ایک فائنل میچ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ میچ نہ صرف کیمپ میں موجود کھلای بلکہ Leipzig کے لوگوں کے لئیے بھی ایک بہترین موقع ہوگا کہ وہ ایک پرانے کھیل کو ایک نئے انداز سے دیکھیں گے۔


پاکستان وومن فٹ بال فیڈریشن:

پاکستان میں خواتبن اس کھیل میں کتنی شرکت کر رہی ہیں اور موجودہ صورتحال کیا ہے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں