فٹ بال ورلڈ کپ ختم مگر روہنگیا اب بھی اس ’بخار‘ میں مبتلا
20 جولائی 2018
بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجر کیمپوں میں نوعمر بچے اب بھی فٹ بال ورلڈ کپ کا لطف لینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیمپ کے کئی خیموں پر برازیل اور ارجنٹائن کے پرچم لہرا رہے ہیں۔
اشتہار
جنوب مشرقی بنگلہ دیشی علاقے میں دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ واقع ہے۔ اس کیمپ میں تقریباً ایک ملین روہنگیا مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اس کیمپ میں پہلی مرتبہ نوعمر روہنگیا بچوں کو فٹ بال ورلڈ کپ کے میچ دیکھنے کا موقع ملا۔ پندرہ جولائی کے فائنل میچ کے بعد بھی ان بچوں میں فٹ بال کا شوق کم نہیں ہوا ہے۔
اس کیمپ کے کئی حصوں میں درجنوں بچے ننگے پاؤں فٹ بال کھیلتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہ اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ اس کیمپ کو مون سون کی بارشیں کسی بھی وقت اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔ ان بچوں نے ایک کم عمر ریفری بھی مقرر کر رکھا ہوتا ہے، جو کھیلتے ہوئے بچوں کے فاؤلز پر بھی اپنی نگاہ رکھتا ہے۔
کیمپ کے گندے راستوں پر فٹ بال ورلڈ کپ کا ایک نمونہ ان روہنگیا بچوں نے تیار کر کے رکھا ہوا ہے۔ ان بچوں نے روس میں کھیلے جانے والے ورلڈ فٹ بال کپ کے انداز میں گلی میں بنائے گئے نمونے کو اپنی بساط کے مطابق رنگوں سے بھی سجایا ہوا ہے جبکہ چھوٹے سے ورلڈ کپ کو سنہرا رنگ دے رکھا ہے۔
یہ بچے ایک خواب کی عمر میں ہیں اور کئی ایک خود کو لیونل میسی اور بعض رونالڈو کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ کچھ بچوں کے نزدیک اُن کی پسندیدہ ٹیم ارجنٹائن، اس لیے ہے کیونکہ اُس میں میسی کھیلتا ہے۔ ایک بچہ تو نیلے اور سفید پٹیوں والی ارجنٹائن کی شرٹ پہن کر میسی بنا پھرتا ہے۔
اسی کیمپ میں ایک اور بچو نور الافسر ہے اور وہ برازیلی کھلاڑی نیمار کا دیوانہ ہے۔ کیمپ میں ایک ٹیلی وژن پر کئی شائقین نے فٹ بال ورلڈ کپ کے میچوں کو دیکھا تھا۔ یہ ٹیلی وژن ایک جگہ کو صاف کر کے لگایا گیا اور شائقین کے بیٹھنے کے لیے خیمے کی ترپال چادروں کو خاص طور پر زمین پر بچھایا جاتا تھا۔
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘