برگرکنگ نے عالمی کپ فٹ بال کے لیے بنائے گئے اپنے ایک اشتہار کو روکنے کا اعلان کیا ہے، جس میں روسی خواتین کو فٹ بالروں کے ساتھ جنسی تعلقات کے لیے اکسایا گیا تھا۔ برگرکنگ نے اس اشتہار پر معذرت کی ہے۔
اشتہار
عالمی کپ فٹ بال کے موقع پر دنیا بھر کی فٹ بال ٹیمیں روس میں ہیں اور ایسے میں برگر کنگ نے اپنی ایک اشتہاری مہم میں روسی خواتین سے کہا تھا کہ وہ خواتین جو فٹ بالروں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کے بعد حاملہ ہوں گی، انہیں قریب 45 ہزار ڈالر دیے جائیں گے جب کہ وہ تمام عمر برگرکنگ سے مفت برگر بھی کھا سکیں گی۔
اس مہم کے مطابق، ’’اپنی سماجی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے برگرکنگ ان تمام خواتین کو انعام دینے کا اعلان کرتا ہے، جو فٹ بالروں سے حاملہ ہوں گی۔ ہر خاتون کو تین ملین روبیل (45 ہزار ڈالر) اور تمام عمر وہوپر برگز ملیں گے۔ ایسی خواتین جو فٹ بال کے بہترین جین حاصل کر لیں گے، مستقبل کی کامیاب روسی نسل کو یقینی بنائیں گی۔‘‘
اس آن لائن اشتہاری پوسٹ کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا تھا، ’’ نکل پڑیے، ہمیں آپ پر اعتبار ہے۔‘‘
اس اشتہار پر سوشل میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا کی جانب سےشدید تنقید سامنے آنے کے بعد برگرکنگ نے یہ اشتہار ختم کر دیا ہے۔ برگرکنگ کی جانب سے اس حوالے سے معذرت کرتے ہوئے کہا گیا، ’’ہم اپنے بیان پر معافی چاہتے ہیں۔ یہ جذبات مجروح کرنے والا معاملہ بن گیا تھا۔‘‘
جرمنی میں مردوں کی تدفین بھی ایک منافع بخش کاروبار
جرمنی میں مردوں کی تدفین کرنے والے چار ہزار سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں، جن کے اشتہارات اب انٹرنیٹ پر بھی نظر آتے ہیں۔ جرمنی میں مردوں کی تدفین کے مختلف طریقے، تفصیلات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Imago/W. Otto
جرمنی میں مردوں کی تدفین بھی ایک منافع بخش کاروبار
زندگی اور موت ابتدائے حیات سے ہی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کسی انسان کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات کی ادائیگی ہمیشہ ہی سے ایک پیشہ بھی رہی ہے۔ جرمنی میں اس وقت مردوں کی تدفین کرنے والے چار ہزار سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں، جن کے اشتہارات اب انٹرنیٹ پر بھی نظر آتے ہیں، کیونکہ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.Stratenschulte
کم قیمت تدفین، ایک مشکل عمل
مردوں کی تدفین کبھی صرف مذہبی روایات اور اخلاقی اقدار پر مبنی عمل ہوتا تھا۔ ماضی میں صرف خاندانی ادارے ہی یہ کام کرتے تھے۔ اب جرمنی میں یہ کام چار ہزار سے زائد کمپنیاں کرتی ہیں، جن کی مختلف شہروں میں متعدد شاخیں بھی ہیں۔ سب سے زیادہ آبادی والے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں کسی مردے کی تدفین کا انتظام 444 سے لے کر 950 یورو تک میں ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ عمل بہت مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔
تصویر: Imago/Werner Otto
میت کو جلانا اب ترجیحی طریقہ
جرمنی میں اوسطاﹰ 45 فیصد مردے دفنائے جاتے ہیں اور قریب 54 فیصد لاشیں جلا دی جاتی ہیں۔ 1999ء میں تابوت میں تدفین کا تناسب 60 فیصد تھا۔ کسی میت کو جلا کر راکھ لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہے، جو راکھ دان کو کسی قبرستان میں دفنا دیتے ہیں۔ راکھ دان کی تدفین تابوت کی تدفین سے کہیں سستی ہوتی ہے۔ جرمن ریاست بریمن تو شہریوں کو اپنے عزیزوں کی راکھ اپنے گھروں کے باغیچوں میں دفنانے کی اجازت بھی دے چکی ہے۔
تصویر: Kai Nietfeld/picture-alliance/dpa
تدفین پر لاگت چار ہزار یورو تک
جرمنی میں مردوں کی آخری رسومات کی ادائیگی مسلسل مہنگی ہوتے جانے کی ایک وجہ تدفین کے متنوع طریقے بھی ہیں۔ تابوت میں بند لاش کو قبر میں دفنانا، میت کا جلا دیا جانا، لاش کو سمندر میں بہا دینا یا پھر کسی خاندانی قبر میں تدفین، خرچے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مردے کے لواحقین کا منتخب کردہ طریقہ کار کیا ہے۔ اس طرح آخری رسومات کی ادائیگی پر لاگت ڈھائی ہزار یورو سے لےکر چار ہزار یورو تک ہو سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kembowski
تابوت یا راکھ دان
مردے کی تدفین پر لاگت کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ اسے دفنایا جائے گا یا جلایا جائے گا۔ میت جلا دی جائے، تو خرچہ کم۔ تب صرف راکھ دفنائی جاتی ہے۔ کبھی کبھی تدفین سستی ہوتی ہے لیکن سماجی تعزیتی تقریبات مہنگی۔ قبر میں دفنانے کے لیے بلدیاتی قبرستانوں میں انفرادی قبریں اکثر سالہا سال کے لیے کرائے پر لی جاتی ہیں۔ کسی قبر پر اگر سنگِ مرمر کا کتبہ بنوا کر لگوایا جائے تو تدفین مزید مہنگی ہو جاتی ہے۔
تصویر: DW/V. Weitz
شرحء اموات زیادہ، شرحء پیدائش کم
2016ء میں نو لاکھ گیارہ ہزار جرمنوں کا انتقال ہوا، جو 2015ء کے مقابلے میں 1.5 فیصد کم تھا۔ جرمنی میں 1972ء سے لے کر آج تک مجموعی شرحء اموات سالانہ شرحء پیدائش سے زیادہ رہی ہے۔ زیادہ شہریوں کی موت کے باعث تدفین کا کاروبار زیادہ ہوا تو وہ مہنگا بھی ہو گیا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ جرمن زبان میں اگر گوگل پر ’سستی تدفین‘ کو سرچ کیا جائے تو نتائج کی تعداد لاکھوں میں نکلتی ہے۔
تصویر: Imago/R. Oberhäuser
سرکاری مدد سے تدفین کے لیے ساٹھ ملین یورو
جرمنی میں ہزاروں خاندان ایسے بھی ہیں، جو اپنے کسی عزیز کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات کی ادائیگی کا خرچ خود برداشت نہیں کر سکتے۔ ایسے شہریوں کی مالی مدد مقامی حکومتیں کرتی ہیں، جنہوں نے اس مد میں 2017ء میں کُل 60 ملین یورو خرچ کیے۔ ان رقوم سے تقریباﹰ 22 ہزار شہریوں کی تدفین میں 750 یورو فی میت کی شرح سے سرکاری مدد کی گئی۔
تصویر: Imago/W. Otto
7 تصاویر1 | 7
یہ اشتہار ایک طرح سے ان روسی قانون سازوں پر پھبتی کسنے کے مترادف بھی تھا، جنہوں نے روسی خواتین کو متنبہ کیا تھا کہ وہ عالمی کپ فٹ بال کے دوران روس آنے والے غیر ملکیوں کے ساتھ جنسی تعلقات استوار نہ کریں۔
کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والی ایک قانون ساز تمارا پلیٹنیووا نے ایک مقامی ریڈیو سے بات چیت میں کہا تھا، ’’یہ ورلڈ کپ روسی خواتین کو دوسری نسلوں کے بچے پالنے پر لگا دے گا۔‘‘
امن کی پیامبر، کراچی کی بولتی دیواریں
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے شہر کراچی کی وہی دیواریں، جو اب تک نفرت انگیز سیاسی اور مذہبی نعروں اور عوامی اشتہارات سے بھری نظر آتی تھیں، اب شہر کا امیج تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/U. Fatima
آئی ایم کراچی
خوبصورت رنگوں اور پیغامات سے سجی یہ دیواریںI am Karachi یا ’میں کراچی ہوں‘ نامی اس مہم کا حصہ ہیں جس میں شہر کی دیواروں پر گرافٹی اور آرٹ کے ذریعے امن اور محبت کا پیغام دیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
شوخ رنگ
شہر کی دیواروں کو خوبصورتی دینے کے لیے پُر عزم نوجوانوں کی کمپنی آبدوز آرٹس کے تعاون سے اس مہم میں اب تک شہر کی کئی دیواروں کو شوخ رنگوں اور امن و محبت کے پیغامات سے سجایا جا چکا ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
فنکار، طالب علم اور معروف آرٹسٹ شریک
آبدوز آرٹس کے بانی عمر عاصم کے مطابق اس مہم میں ایک سو کے قریب فنکار حصہ لے رہے ہیں، جن میں مختلف تعلیمی اداروں کے طالب علموں سمیت بعض معروف آرٹسٹ بھی شامل ہیں۔
تصویر: DW/U. Fatima
امن و محبت پھیلانے کی دُھن
آئی بی اے، کراچی یونیورسٹی، انڈس ویلی اسکول آف آرٹس جیسے معروف اداروں کے طالب علم ہی نہیں بلکہ دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی دھوپ اور گرمی کی پرواہ کیے بغیر اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
تصویر: DW/U. Fatima
اسٹینسل آرٹ
اس پراجیکٹ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں اسٹینسل آرٹ کے ذریعے پندرہ سو دیواروں پر آرٹ کے نمونے تیار کیے جائیں گے۔
تصویر: DW/U. Fatima
آرٹسٹوں کے نمونے
دوسرے حصے میں پچاس آرٹسٹوں پر مشتمل ایک ٹیم اپنے انفرادی آرٹ کے نمونے شہر کی مختلف دیواروں پر پینٹ کر رہی ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
بچوں سے تبدیلی
تیسرا حصہ بچوں سے تبدیلی کے نام سے ہے، جس میں بچے مختلف سرکاری اسکولوں کی دیواروں پر پینٹ کریں گے۔
تصویر: DW/U. Fatima
ایم ٹی خان اور لیاری میں کام مکمل
اب تک مولوی تمیز الدین خان یا ایم ٹی خان روڈ اور لیاری کی دیواروں پر کام کیا جا چکا ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں ایئرپورٹ اور اطراف کی دیواروں پر کام شروع کیا جائے گا۔
تصویر: DW/U. Fatima
سوشل میڈیا پر شہرت
ایم ٹی خان روڈ پر مکمل کیے گئے اس پراجیکٹ کو عوامی حلقوں اور سوشل میڈیا پر بے انتہا پذیرائی مل رہی ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
مکمل شدہ کام کی پذیرائی
آبدوز آرٹس کے عمر عاصم کہتے ہیں کہ ان دیواریوں پر کام کے دوران انہیں صرف عوام ہی نہیں بلکہ حکومت اور دیگر حلقوں کی جانب سے بھی بے حد پذیرائی اور حوصلہ مل رہا ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
گندگی کی جگہ صفائی اور رنگ
آئی ایم کراچی کی جانب سے جاری اس مہم کے دوران وہ دیواریں بھی اب صاف ستھری اور خوبصورت منظر پیش کر رہی ہیں، جہاں کبھی گندگی نظر آیا کرتی ہیں۔ ان دیواروں کو پینٹ کرنے سے قبل ان کی صفائی کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
11 تصاویر1 | 11
پلیٹنیووا کا کہنا تھا کہ سن 1980 کے ماسکو اولمپکس میں کئی روسی خواتین نے غیر ملکیوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کیے تھے اور حاملہ ہو گئی تھیں۔ ’’ایسے میں بچوں کو مشکلات پیش آتی ہیں۔ خوش بختی یہ ہو سکتی ہے کہ وہ ایک ہی (ماں والی) نسل سے ہوں مگر اگر ان کی نسل مختلف ہوتی ہے، تو اس سے برا کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘
ماسکو حکومت نے تاہم پلیٹینیووا کے اس بیان سے دوری اختیار کرتے ہوئے کہا تھا، ’’روسی خواتین اپنے معاملات کی دیکھ بھال خود کر سکتی ہیں کیوں کہ وہ دنیا کی سب سے بہترین خواتین ہیں۔‘‘