فٹ بال کے میدان سے ایوان صدر میں داخل ہونے والے جارج وِیّا
عابد حسین
29 دسمبر 2017
مغربی افریقی ملک لائبیربا کا صدارتی الیکشن جورج وِیّا نے جیت لیا ہے۔ وِیّا عالمی شہرت یافتہ فٹ بالر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی عمر اکاون برس ہے۔
اشتہار
لائبیریا میں پہلی مرتبہ جمہوری روایات کے تحت اقتدار کی منتقلی کا عمل ایک قدم اور آگے بڑھ گیا ہے۔ بین الاقوامی شہرت کے حامل فٹ بالر جارج وِیّا نے صدارتی الیکشن کا دوسرا مرحلہ باوقار انداز میں جیت لیا ہے۔ وہ براعظم افریقہ کی پہلی خاتون صدر ایلین جانسن سرلیف کی جگہ منصب صدارت سنبھالیں گے۔ وِیّا سولہ جنوری سن 2018 کو اپنے منصب کا حلف اٹھائیں گے۔
لائبیریا کے نیشنل الیکشن کمیشن کے سربراہ نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ تقریباً تمام ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی مکمل ہو چکی ہے اور جارج وِیّا خاصی بڑی سبقت رکھتے ہیں۔ اس سابق فٹ بالر کو صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں موجودہ نائب صدر جوزی بوکائی کا سامنا تھا۔ بوکائی نے الیکشن میں اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔
جارج وِیّا کی سیاسی جماعت ’کانگریس برائے جمہوری تبدیلی‘ ہے اور اُس کے نوجوانوں کے شعبے کی نائب صدر جوزفین ڈیویز نے کہا کہ یہ جماعت گزشتہ بارہ برسوں سے اپوزیشن میں رہتے ہوئے کسی بڑی تبدیلی کی منتظر تھی اور وِیّا کی کامیابی لائبیریا کے لیے ایک سنگ میل ہے۔ خود وِیّا نے بھی اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اب لائبیریا میں تبدیلی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔
جارج وِیّا سن 1990 کی دہائی میں یورپ کے مشہور فٹ بال کلبوں پیرس سینٹ جرمین اور اے سی میلان سے وابستہ رہے تھے۔ وہ کچھ عرصے کے لیے برطانوی فٹ بال کلبوں چیلسی اور مانچسٹر سٹی کی بھی نمائندگی کر چکے ہیں۔ اُن کو براعظم افریقہ کا پیلے بھی کہا جاتا ہے۔
وِیّا تین مرتبہ افریقہ کے بہترین فٹ بالر کا اعزاز جیتنے کےعلاوہ پہلے افریقی فٹ بالر تھے جنہیں سن 1990 میں دنیا کا بہترین فٹ بالر قرار دیا گیا تھا۔ وہ ایک فارورڈ کھلاڑی تھے اور میدان میں اُن کو کنگ جارج کی عرفیت سے پکارا جاتا تھا۔
جارج وِیّا کے صدارتی الیکشن جیتنے پر اندرون ملک عوام کی جانب سے مسرت کا بھرپور انداز میں اظہار کیا جا رہا ہے۔ غیر ملکی سربراہان کی جانب سے مبارک باد کا سلسلہ شروع ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ یہ لائبیریا کے عوام کے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔
لائبیریا کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس کو آزاد ہونے والے امریکی غلاموں نے آباد کیا تھا۔ یہ پہلا افریقی ملک ہے جس نے 26 جولائی سن 1847 کو اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ یہی ملک براعظم افریقہ میں سب سے پرانی اور پہلی جمہوریہ بھی سمجھا جاتا ہے۔
ایبولا وائرس: دنیا خوف میں مبتلا
مغربی افریقی ممالک میں چار ہزار افراد ایبولا کے مرض کا شکار ہو کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں اس وائرس کی نشاندہی کے بعد دنیا بھر میں اس وبا کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایبولا امریکا اور اسپین میں بھی
امریکی ریاست ٹیکساس میں ایک نرس کے ابیولا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد پولیس نے اس کے گھر کی ناکہ بندی کر دی تھی۔ یہ مغربی افریقی ممالک سے باہر ایبولا کا دوسرا واقعہ تھا۔ ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ میں بھی ایک نرس ایبولا سے متاثرہ ایک مریض کے علاج کے دوران اس وائرس کا شکار ہو گئی تھی۔
تصویر: Reuters/Jaime R. Carrero
گینی: ایبولا کا پہلا مریض
گزشتہ برس گینی کے ایک گاؤں میلاندو میں پہلی مرتبہ ایبولا کی نشاندہی ہوئی تھی۔ چھ دسمبر 2013ء کو دو سالہ ایک بچہ ایبولا کا شکار ہوا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اس وائرس سے ہونے والی پہلی ہلاکت تھی۔ بعد میں اس مرض نے بچے کی بہن، والدہ اور دادی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ مارچ 2014ء میں گینی کی حکومت نے عالمی ادارہ صحت کو ایبولا کے پھیلاؤ کے حوالے سے اطلاع دی تھی۔
گینی سے لائبیریا منتقلی
اس موقع پر ایبولا گینی سے پڑوسی ملک لائبیریا تک پہنچ چکا تھا۔ ساتھ ہی سیرا لیون میں بھی کچھ افراد میں اس وائرس کی نشاندہی ہوئی تھی۔ لائبیریا کے دارالحکومت مونروویا میں نرسیں اور ہسپتال کا دیگر عملہ آج کل ہڑتال پر ہے، جس کی وجہ سے صورت حال کے مزید بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ سینیگال اور نائجیریا میں اس دوران اس حوالے سے حالات کافی حد تک کنٹرول میں ہیں۔
ایبولا کی روک تھام ممکن ہے
ایبولا جسم میں موجود سیال، خون کی منتقلی یا بیمار افراد کے فُضلے یا قے وغیرہ سے کسی قسم کے رابطے کی وجہ سے پھیلتا ہے۔ اسی وجہ سے گھر میں رہنے والے افراد یا ڈاکٹر اور طبی عملے کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ جینیوا میں عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ تواتر کے ساتھ ڈس انفیکشن اور حفاظتی سوٹ کے پہننے سے خود کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ ابھی تک چار سو ڈاکٹر اور طبی عملے کے افراد ایبولا کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/P. Guyot
بڑھتی ہوئی ہلاکتیں
ابھی تک چار ہزار سے زائد افراد اور دو ہزار سے زائد لاشوں میں ایبولا کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی سربراہ مارگریٹ چن نے منیلا میں ہونے والی ایک کانفرنس میں کہا تھا کہ ایبولا سے پوری دنیا کو خطرہ ہے۔ ایشیا میں ابھی تک ایبولا سے ملتی جلتی اقسام سامنے آئی ہیں، جو ہلاکت خیز نہیں ہیں۔
جرمنی میں ایبولا کے مریضوں کا علاج
جرمنی میں اس دوران ایبولا سے متاثرہ افراد کا علاج کیا جا رہا ہے۔ یہ مریض مغربی افریقہ سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے کارکن ہیں۔ ان کے علاج کے لیے فرینکفرٹ اور لائپزگ میں خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ صحت کے امور سے متعلق جرمن وزیر ہیرمان گرؤہے کے بقول جرمنی میں اس وائرس کے پھیلنے کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔