فیجی: انصاف کی راہ میں رخنہ ڈالنے پر سابق وزیر اعظم کو جیل
9 مئی 2024
فیجی کی ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم فرینک بینی ماراما کو ملک کی ایک یونیورسٹی میں بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کو منسوخ کرنے کا مجرم قرار دیا۔
بینی ماراما ایک سابق فوجی کمانڈر تھے، جنہوں نے سن 2006 میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا تصویر: Leon Lord/AFP/Getty Images
اشتہار
جمعرات کے روز فیجی کی ایک عدالت نے سابق وزیر اعظم فرینک بینی ماراما کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے کا قصوروار ٹھہرایا اور انہیں اس جرم کے لیے ایک برس قید کی سزا سنائی۔
دارالحکومت سووا میں فیجی کی ہائی کورٹ نے پایا کہ بینی ماراما نے اپنی سیاسی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے فیجی کی ایک یونیورسٹی میں بدعنوانی کے الزامات کے حوالے سے پولیس نے جو تحقیقات شروع کی تھیں اسے انہوں نے مسترد کر دیا تھا۔
جج نے وزارت عظمی کے عہدے کے حلف کو نظر انداز کرنے پر سابق وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ ایک نچلی عدالت نے بینی ماراما کو قید کی سزا سنائی تھی، تاہم ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی وجہ سے وہ جیل جانے سے بچ گئے تھے۔ البتہ اب اپیل کورٹ نے بھی اسی فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔
فیصلہ سناتے ہوئے قائم مقام چیف جسٹس سیلسی ٹیمو نے اپنے عہدے کے حلف کو نظر انداز کرنے پر بینی ماراما کی سرزنش بھی کی۔
تاہم فیجی کے دو سابق صدور کی جانب سے سابق وزیر اعظم کے کردار کے حوالے اپنی سفارشات پیش کیں، جس کی بنیاد پر ان کی سزا کو کم کر دیا گیا ہے۔
بینی ماراما ایک سابق فوجی کمانڈر تھے، جنہوں نے سن 2006 میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور تبھی سے وہ جنوبی بحرالکاہل کے اس ملک میں ایک مقبول رہنما بنے ہوئے تھے۔
سابق وزیر اعظم بینی ماراما اور ان کے ساتھی پولیس افسر قلیہو دونوں ہی شروع سے اپنا یہ موقف برقرار رکھا کہ وہ بے قصور ہیںتصویر: Carlos Costa/AFP
جب عدالت میں سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم کو سزا سنائی جا رہی تھی، تو بینی ماراما کے حامی باہر نغمے گارہے تھے۔ اس کے بعد سابق وزیر اعظم کو پولیس کی ٹرک میں لے جانے سے پہلے ہتھکڑیاں لگا دی گئیں۔
بینی ماراما کے خلاف مقدمہ کیا تھا؟
سن 2020 کے دوران، جب بینی ماراما وزیر اعظم تھے، فیجی کی یونیورسٹی آف ساؤتھ پیسیفک کے عملے کے بارے میں پولیس نے تفتیش شروع کی تھی اور اسی معاملے میں انہیں اور ان کے ایک دیرینہ ساتھی سیوٹنی قلیہو، جو ملک کے اعلیٰ پولیس افسر تھے، پر الزامات عائد کیے گئے۔
عینی شاہدین کے مطابق، جب یونیورسٹی کے عملے کو بونس سے متعلق مشکوک رقم کی ادائیگیوں، تنخواہوں میں اضافے اور ترقیوں کا پتہ چلا، تو بینی ماراما اور قلیہو نے اس کی تفتیش کو نظر انداز کرنے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا۔
البتہ سابق وزیر اعظم بینی ماراما اور قلیہو دونوں نے شروع سے آخر تک اپنا یہ موقف برقرار رکھا کہ وہ بے قصور ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)
فیجی کے ڈوبتے جزائر
سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح نے جنوبی بحرالکاہل کے سینکڑوں گاؤں کے رہائشیوں کو بلند علاقوں یا دوسرے جزیروں پر منتقل ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ مقامی افراد کے لیے یہ ایک تکلیف دہ قدم ہے۔
تصویر: LOREN ELLIOTT/REUTERS
سیلابی ریلا
فیجی کے جزیرے سیریا پر، پانی رکاوٹوں کو توڑ کر گاؤں میں داخل ہو گیا تھا۔ کچھ گھروں کے درمیان لکڑی کے تختوں کے ذریعے عارضی راستے بنائے گئے۔ کھارے پانی سے باغات اور فصلوں کو شدید نقصان پہنچا۔
تصویر: LOREN ELLIOTT/REUTERS
مستقبل کو محفوظ بنانا
ایک مقامی خاتون سیروا نامی گاؤں میں تین بچوں کی پرورش کر رہی ہیں۔ یہاں ان کی تین سالہ بیٹی ان کی گود میں ہے۔ اس خاتون کا کہنا ہے کہ سیلاب، کٹاؤ اور شدید موسمی حالات کے پیش نظر، سیروا گاؤں کی اگلی نسل کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے فیجی کے مرکزی جزیرے پر منتقل ہونا ہو گا۔
تصویر: LOREN ELLIOTT/REUTERS
امکانات کی کمی
سیروا گاؤں آٹھ سالہ رتوکالی مدناوا آج کل غوطہ خوری نہیں کر رہیں۔ گاؤں کے بزرگ اس بارے میں پریشان ہیں کہ کیا مصنوعی طریقے سمندر کو مزید دیہاتوں اور قبرستانوں کو نگلنے سے روکا جا سکتا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ تمام دستیاب آپشنز ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
تصویر: LOREN ELLIOTT/REUTERS
کوئی راستہ نہیں
ایک بزرگ مقامی رہائشی اور ان کا پوتا فیجی کے ایک جزیرے پر ماہی گیری کے سفر کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس گاؤں کے بزرگوں کا ہمیشہ یہ خیال تھا کہ وہ یہاں اپنی پیاری زمین پر ہی ہلاک ہوں گے، جہاں ان کے آباؤ اجداد دفن ہیں۔ لیکن جب کمیونٹی کے پاس اپنے علاقے کو بچانے کے راستے ختم ہو جائیں گے، تو یہاں مقیم 80 دیہاتیوں کو اپنی زمین چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہونا پڑے گا۔
تصویر: LOREN ELLIOTT/REUTERS
غیر موثر روکاوٹیں
فیجی کی اقتصادی امور کی وزارت کے ساتھ منسلک موسمیاتی تبدیلی کے ماہر شیونال کمار نے کہا کہ بند بنانا، درخت لگانا اور نکاسی آب کو بہتر بنانا اب اس گاؤں کو بچانے کے لیے کافی نہیں ہے۔
تصویر: LOREN ELLIOTT/REUTERS
آلودگی کا سبب بنے والی ریاستیں ادائیگیاں ادا کرنے سے انکاری
اقوام متحدہ کی ماحولیات سے متعلق کانفرنسوں میں صنعتی ممالک کی طرف سے جو فنڈز کا وعدہ کیا گیا ہے وہ آبادکاری کے لیے نہیں بلکہ بند کی تعمیر، درختوں کو اگانے وغیرہ جیسے اقدامات کے لیے دیے جاتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آنے والی اقوام، جیسے کہ فیجی کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کا مسئلہ پیدا کرنے والے ممالک کو معاوضے کی ادائیگیوں میں کنجوسی نہیں کرنی چاہیے۔
تصویر: LOREN ELLIOTT/REUTERS
مایوس دیہاتی
اگست کے اوائل میں COP26 کے صدر آلوک شرما نے دارالحکومت سووا میں کہا تھا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی سے براہ راست متاثر دیہاتیوں کی مایوسی کو سمجھتے ہیں، ’’آپ کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے نتائج سے نمٹنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ گیسیں بڑے پیمانے پر سب سے زیادہ اخراج کرنے والے ممالک کی طرف سے پیدا کی جاتیں ہیں، جو خود یہاں سے بہت دور ہیں۔ یہ آپ کا پیدا کردہ بحران نہیں ہے۔"
تصویر: LOREN ELLIOTT/REUTERS
مشکل فیصلہ
وینادوگولوا نامی اس گاؤں کے بچوں کو اب اپنے گھروں کے سامنے گھٹنوں گھٹنوں پانی میں کھڑا نہیں ہونا پڑتا بلکہ اب وہ خشک پاؤں کے ساتھ اپنے نئے گھروں کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کا نیا گاؤں پرانے گاؤں سے 1.5 کلومیٹر دور ہے۔ 63 سالہ راماتو کا کہنا ہے کہ بزرگوں کو راضی کرنے میں کچھ وقت لگا، لیکن گاؤں والوں نے آخر کار ماہرین کی بات مان لی۔ نئے گاؤں کا نام کنانی ہے۔