چہرے میں ردوبدل کرنے والا روسی کمپنی کا ’فیس ایپ‘ صارفین میں انتہائی مقبول ہو رہا ہے لیکن کئی مغربی سیاستدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اس ایپ کو ڈاؤن لوڈ کرنے سے ان کا ڈیٹا غلط ہاتھوں میں جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Romano
اشتہار
روسی ڈویلپر 'وائرلیس لیب‘ کا 'فیس ایپ‘ نہ صرف اینڈرائنڈ بلکہ ایپل کے صارفین میں بہت مقبول ہو چکا ہے۔ اس ایپلیکیشن کی مدد سے کوئی بھی صارف اپنی تصویر میں ردوبدل کرتے ہوئے اپنے چہرے کے فیچرز اپنی مرضی کے بنا سکتا ہے۔ اس ایپ کو استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی صارف اپنے چہرے کو عمر رسیدہ یا جوان بنا سکتا ہے۔
اس ایپ سے میک اپ کے ساتھ چہرے کے فیچرز کو خوبصورت بھی بنایا جا سکتا ہے۔ بالوں کو سنہرا کرنا، چہرے پر جھریاں ڈالنا یا چہرے کی جلد کی رنگت میں تبدیلی کرنا، اس ایپ کی مدد سے ممکن ہے۔ دنیا بھر کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی صارفین اس ایپ کے ذریعے اپنے چہرے کو بدل کر ان تصاویر کو سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں۔
فیس ایپ کا کہنا ہے کہ اس کے صارفین صرف چند ساعتوں میں خود کو بوڑھا ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔ کرنا صرف یہ ہوتا کہ ایک تصویر کو اس ایپ میں اپ لوڈ کرنا ہوتا ہے اور چند مرحلوں کے بعد کوئی بھی صارف اپنی مرضی کی تصویر تیار کر سکتا ہے۔ تاہم سائبر سکیورٹی فورسز ماہرین اور سیاستدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اس ایپ کو ڈاؤن لوڈ کرنے سے صارفین کے ذاتی کوائف غلط ہاتھوں میں جا سکتے ہیں۔
یہ ایپ منصوعی ذہانت کے ساتھ کام کرتی ہے، جو یہ سمجھتی ہے کہ انسان بوڑھا کیسے ہوتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ تصویر کے فیچرز کو انتہائی حقیقی انداز میں تبدل کر سکتی ہے۔ یہ ایپ روسی ڈویلپر وائرلیس لیب کی ملکیت ہے اور یہ گزشتہ دو برسوں سے مارکیٹ میں موجود ہے تاہم حالیہ کچھ عرصے میں کچھ مشہور اور مقبول شخصیات کی طرف سے اس کے استعمال کی وجہ سے اس کی عوامی مقبولیت بڑھی ہے۔
وائرلیس لیب کا صدر دفتر سینٹ پیٹرس برگ میں قائم ہے۔ ناقدین کے بقول اس ایپ کے استعمال کرنے کے قواعد و ضوابط مبہم ہے۔ اس کمپنی کے بارے میں زیادہ معلومات بھی دستیاب نہیں ہے۔ یہ کمپنی نہ صرف صارفین کا ڈیٹا جمع کرتی ہے بلکہ تصاویر کو اپنے سرورز میں محفوظ بھی کر لیتی ہے۔ ماہرین نے اس بات کا خطرہ ظاہر کیا ہے کہ روسی حکومت ان معلومات تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔
تاہم فیس ایپ کے سی ای او یاروسلاف گونچاروف نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روسی صدر ولادی میر پوٹن کو ایسے کسی ایپ میں کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی، جو چہرے میں جھریاں ڈال رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایپ صرف وہی تصویر محفوظ کرتا ہے، جو صارفین اپنی رضا مندی سے اپ لوڈ کرتے ہیں اور جنہیں وہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس ایپ کے سرورز صرف روس میں ہی نہیں بلکہ امریکا، سنگاپور اور آئرلینڈ میں بھی ہیں، جو ایمازون یا گوگل سے تعلق رکھتے ہیں۔
آپ آئی فون کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟
2016ء میں پہلی بار آئی فون کی فروخت میں کمی کی خبریں آ رہی ہیں۔ ایپل کی کل کمائی کا 63 فیصد حصہ آئی فون سے آتا ہے۔ آئی فون اپنے لیے مارکیٹ میں ایک خاص مقام بنانے میں کیسے کامیاب ہوا؟
تصویر: picture alliance/AP Images/P. Sakuma
جی ہاں، ’جامنی‘
جس وقت آئی فون صرف ڈرائنگ بورڈ پر بنا ایک آئيڈيا تھا، اس کا پروجیکٹ کوڈ ’جامنی‘ تھا۔ ایپل کے ایک سابق مینیجر کے مطابق جامنی کی ٹیم جس جگہ کام کرتی تھی، وہ کسی ہاسٹل کے کمرے سے ملتا جُلتا تھا۔ کمرے میں پیزا کی مہک تھی اور دیواروں پر ایک فائٹ کلب کے پوسٹر۔
تصویر: picture alliance/AP Images/P. Sakuma
کیا وقت ہوا ہے؟
سٹیو جابز پہلا آئی فون 29 جون 2007ء کو صبح 9:42 بجے دنیا کے سامنے لائے۔ تقریب کا وقت اس طرح کا رکھا گیا تھا کہ جب لوگ نئی مصنوعات کی تصاویر دیکھیں تو ڈسپلے پر وہی وقت نظر آ رہا ہو، جو اُس لمحے اصل وقت ہو۔ وقت کی اس پابندی کا خیال کمپنی ہمیشہ رکھتی چلی آئی ہے گو 2010ء میں آئی پیڈ لانچ کرتے وقت ایک منٹ کا فرق آ گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Mabanglo
اگلی جنریشن کی ٹیکنالوجی
یہ صحیح ہے کہ سب سے پہلا آئی فون 599 ڈالر کا تھا جو کہ تب خاصا مہنگا تھا لیکن ایک فون وہ سب کچھ کر سکتا تھا، جو اس وقت تک مجموعی طور پر 3000 ڈالر کی قیمت والے مختلف آلات مل کر کرتے تھے۔ آئی فون نے سی ڈی پلیئر، کمپیوٹر، فون اور آنسرنگ مشین سب کی ایک ساتھ جگہ لے لی۔
تصویر: colourbox
کیا سکرین پر کریک ہے؟
ہم سب جانتے ہیں کہ جیب سے جلدی میں فون نکالتے ہوئے اکثر فون ہاتھ سے پھسلتا ہے اور زمین پر گر جاتا ہے۔ ایسے میں آئی فون کی سکرین اکثر چٹخ جاتی ہے لیکن اسکائی ڈائیور جیرڈ میکنی نے 2011ء میں اپنا آئی فون 13،500 فٹ کی بلندی سے نیچے گرا دیا۔ اُس کا دعویٰ ہے کہ اتنی بلندی سے نیچے گرنے کے باوجود وہ اپنے اس فون سے کالز کر سکتا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
آئی فون کا آئیڈیا آئی پیڈ سے آیا
2000ء کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں ایپل کمپنی ورچوئل کی بورڈ والے ایک ٹیبلیٹ کمپیوٹر کی تیاری پر کام کر رہی تھی۔ ایک دن ایپل کے ملازمین اپنے موبائل فون کی سست رفتاری پرتنقید کر رہے تھے تو انہیں اچانک یہ خیال آیا کہ جس ٹیکنالوجی کی مدد سے آئی پیڈ بنانے کا سوچا جا رہا ہے، اُسی کو استعمال کرتے ہوئے ایک خاص طرح کا فون بھی تو بنایا جا سکتا ہے۔ اور تب وہ ایک انقلابی نوعیت کا سمارٹ فون بنانے میں جُت گئے۔
تصویر: Getty Images/Feng Li
کروڑوں آئی فون فروخت
ایپل 2007ء سے اب تک تقریباً 90 کروڑ آئی فون فروخت چکا ہے لیکن چین میں اقتصادی بحران کی وجہ سے ایپل نے پہلی بار خبردار کیا ہے کہ اس کی 2016ء کے پہلے کوارٹر کی فروخت 2015ء کے مقابلے میں کم ہو سکتی ہے تاہم لوگوں میں ایپل کا جنون اُسی طرح سے برقرار ہے۔
تصویر: DW/M.Bösch
محبت بھی نفرت بھی
ایک دنیا یہ بات جانتی ہے کہ ایپل اور سام سنگ ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ دونوں کمپنیوں کے درمیان پیٹنٹ کے موضوع پر برسوں سے کئی بڑے مقدمے چل رہے ہیں تاہم ایک محاذ پر یہ دونوں ایک دوسرے کے حلیف بھی ہیں کیونکہ اطلاعات کے مطابق سام سنگ ہی وہ چِپ تیار کرتا ہے، جو آئی فون میں استعمال ہوتی ہے۔