فیس بُک نے روہنگیا عسکریت پسند گروپ کی جانب سے اپنی ویب سائٹ پر معلومات شائع کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ فیس بُک نے اس گروپ کو ایک ’’خطرناک تنظیم‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی طرف سے معلومات شیئر کرنے پابندی لگا دی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق میانمار کی ریاست راکھین میں جاری تشدد کے حوالے سے سوشل میڈیا نیٹ ورکس ہی واحد ذریعہ ہیں جن کے ذریعے مختلف معلومات دنیا تک پہنچ رہی ہے۔ میانمار میں جاری تشدد کے باعث اب تک 420,000 سے زائد روہنگیا مسلمان جان بچانے کے لیے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش ہجرت کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ میانمار کی سکیورٹی فورسز کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری آپریشن کو ’’نسلی تطہیر‘‘ قرار دیا جا چکا ہے۔
روہنگیا گروپ بحران میں گِھرے اس علاقے سے متعلق، جہاں عام میڈیا یا انسانی حقوق کی تنظیموں کو رسائی حاصل نہیں ہے، تشدد پر مبنی ویڈیوز اور مواد شائع کرنے کے لیے فیس بُک کو استعمال کرتے رہے ہیں جبکہ میانمار کی فوج اور حکومت تقریباﹰ روزانہ اس حوالے سے اپ ڈیٹ جاری کرتی ہے۔
بے دخلی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار، روہنگیا کی ہجرت
پناہ کے متلاشی سولہ سو افراد کشتیوں کے ذریعے انڈونیشیا اور ملائشیا کی ساحلوں تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ افراد میانمار کے روہنگیا مسلمانوں اور بنگلہ دیش کے مہاجرین پر مشتمل ہیں۔ ہجرت کی یہ کہانی تصاویر کی زبانی۔
تصویر: Reuters/R: Bintang
ایک روایتی انداز
اتوار دس مئی کو چار کشیتوں کے ایک قافلے میں چھ سو افراد انڈونیشیا کے صوبے آچے پہنچے۔ اسی روز تقریباً ایک ہزار افراد تین مختلف کشیتوں میں شمالی ملائشیا کے سیاحتی علاقے لنگاوی کے ساحلوں پر اترے۔ ان میں کم از کم دو کشتیوں کو مقامی مچھیروں نے ڈوبنے سے بچایا، جس کے بعد کے تمام معاملات پولیس نے اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔
تصویر: Reuters/R. Bintang
بد حالی
ان میں سے کچھ کشتیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار تھے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ انسانی اسمگلرز ممکنہ طور پر ان افراد کو بھوک اور پیاس کی حالت میں بے یار و مددگار چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کشتیوں کا قافلہ تقریباً ایک ہفتے قبل روانہ ہوا تھا۔ ان میں سے بہت سے افراد کو فوری طبی امداد کی بھی ضرورت تھی۔
تصویر: Reuters/R: Bintang
ایک پُر خطر سفر
ہر سال انتہائی غریب بنگلہ دیشی اور بدھ مت کے پیروکاروں کے اکثریتی ملک میانمار سے ہزاروں روہنگیا مسلمان ملائشیا اور انڈونیشیا پہنچتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال کے پہلے تین مہینوں میں پچیس ہزار کے قریب افراد انسانی اسمگلرز کی کشیتوں میں بیٹھ کر یہ سفر کر چکے ہیں۔
تصویر: Asiapics
بے وطن
ینگون حکومت میانمار میں آباد اندازاً آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو غیر قانونی بنگلہ دیشی قرار دیتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کے پاس کوئی شناخت نہیں ہے اور نسلی فسادات نے ان میں سے بہت سوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا۔ ایک اندازے کے مطابق 2012ء کے بعد سے تھائی لینڈ پہنچنے والے روہنگیا کی تعداد ڈھائی لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/R: Bintang
جدید اندازِ غلامی
ایک فلاحی تنظیم فورٹیفائی رائٹس کے میتیھو اسمتھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ روہنگیا ملائشیا پہنچانے کے لیے انسانی اسمگلرز کو دو سو امریکی ڈالر تک دیتے ہیں۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ سفر کے دوران انہیں کھانے پینے کا مناسب سامان مہیا نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی بیٹھنے یا لیٹنے کے لیے مناسب جگہ دستیاب ہوتی ہے۔ دوران سفر انہیں مارا پیٹا بھی جاتا ہے بعض واقعات میں تو قتل بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
تھائی لینڈ کا خوف
بعض روہنگیا افراد کو اسمگلرز کی گاڑیوں میں تھائی لینڈ میں داخل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ اسمگلرز ان افراد کو جنگلوں میں یرغمال بنا لیتے ہیں اور تاوان ادا کرنے کے بعد انہیں آزادی نصیب ہوتی ہے۔ بنکاک حکومت کے ایک حالیہ آپریشن میں پولیس نے جنگلوں میں اجتماعی قبریں دریافت کی ہیں، جس کے بعد بہت سے اسمگلرز نے نئے طریقے اپنانے شروع کر دیے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Sagolj
کارروائی کے نتائج
بنکاک حکومت کے آپریشن کے نتیجے میں جنوبی تھائی لینڈ کے جنگلات میں روہنگیا اور بنگلہ دیشی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد ملی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آپریشن شروع ہو نے کے بعد اسمگلرز ان افراد کو چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ ملنے والے پناہ گزینوں سے تھائی حکام پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/Str
مہاجرت کی لہر
جنوب مشرقی ایشیا کو تنازعات، ظلم و ستم اور غربت کی وجہ سے نقل مکانی کی لہر کا سامنا ہے۔ ابھی حال میں بتایا گیا کہ ایشیا پیسیفک ممالک کے تقریباً بارہ ملین افراد نے ہجرت کی، جو کسی بھی خطے میں سب سے بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی ہے۔
فیس بُک کی خاتون ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ فیصلہ فیس بُک کی کسی شدت پسند گروپوں کو اپنی سائٹ پر جگہ نہ دینے کی پالیسی کے عین مطابق ہے۔ ترجمان کے مطابق اراکان روہنگیا سالویشن آرمی (ARSA) پر پابندی کے حوالے سے فیس بُک کو کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔
میانمار کی ریاست راکھین میں تشدد کا تازہ سلسلہ اُس وقت شروع ہوا جب اگست کے آخری ہفتے میں ARSA نے میانمار کی فوجی پوسٹوں پر حملے کیے تھے۔ میانمار کی فوج پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس نے ان حملوں کے بعد روہنگیا آبادی کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا تھا جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔